پاک امریکا تعلقات، اقوام متحدہ اور افغان مہاجرین پریشان
13 فروری 2018پاکستان کے افغانستان اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کے سبب سب سے زیادہ پریشانی پاکستان میں بسنے والے افغان مہاجرین اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے اقوام متحدہ کے اداروں کو ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے لاکھوں افغان مہاجرین کو واپس اپنے وطن بھیجے جانے سے جنگ سے تباہ حال افغانستان کے مقامی وسائل پر بہت زیادہ بوجھ پڑے گا۔
پاکستان، افغانستان میں حملوں کا اختیار، دباؤ کا نیا طریقہ؟
افغانستان میں چینی فوجی اڈے کا مبینہ پلان، اثرات کیا ہوں گے؟
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے افغان مشن کے نائب سربراہ ٹوبی لانزر کا کہنا تھا، ’’ہم نے تین لاکھ سے بڑھا کر اب سات لاکھ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں اور اگر اصل تعداد اس سے بھی زیادہ ہو گئی تو مجھے حیرت نہیں ہو گی۔‘‘
پاکستان سن 1980 اور سن 1990 کی دہائی سے کئی ملین افغان شہریوں کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے ہے اور اب امریکا اور افغانستان اس جنوبی ایشیائی ملک پر طالبان جنگجوؤں کی مدد کرنے اور افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔
امریکا پاکستان پر ایسے الزامات عائد کرتے ہوئے پہلے ہی پاکستان کو دی جانے والی عسکری امداد روک چکا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیا سال شروع ہوتے ہی پاکستان کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ امریکی امداد کی بندش کے اعلان کے دو ہفتوں بعد ہی اسلام آباد حکومت نے ملک میں بسنے والے افغان مہاجرین کو اپنی سرزمین پر قیام کی اجازت میں توسیع نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں افغان مہاجرین کو مزید دو ماہ تک پاکستان میں قیام کی اجازت دے دی گئی تھی۔
پاکستان میں اب بھی ڈیڑھ ملین سے زائد رجسٹرڈ افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں اور اندازوں کے مطابق قریب اتنے ہی افغان شہری خود کو رجسٹر کرائے بغیر پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ سن 2016 میں قریب ایک ملین افغان شہری پاکستان میں اپنی سلامتی کے حوالے سے پائے جانے والے تحفظات کے بعد وطن واپس لوٹ گئے تھے۔ یہ پیش رفت اسلام آباد کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف شروع کیے گئے نیشنل سکیورٹی پلان پر عمل درآمد کے بعد سامنے آئی تھی۔
تاہم افغانستان واپس لوٹنے والے ان مہاجرین کو اپنے وطن میں بھی انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے۔