پاک امریکی دفاعی تعلقات نچلی ترین سطح پر
16 جون 2011اس سلسلے میں امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والی ایک تازہ ترین رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ یبن الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ایک اہم ساتھی ملک پاکستان کے ساتھ واشنگٹن کے دفاعی تعلقات اس وقت جتنے کشیدہ ہو گئے ہیں، اس سے قبل کبھی نہیں ہوئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق یہ صورتحال انسداد دہشت گردی کے پروگرام کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چُکی ہیں۔
آج جمعرات کو منظر عام پر آنے والی اس رپورٹ میں یہ خدشات بھی ظاہر کیے گئے ہیں کہ پاک امریکی تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے، جس کی وجہ پاکستانی فوج کے اندرامریکہ کی حمایت کم کرنے کے بارے میں پایا جانے والا غیر معمولی دباؤ ہے۔ پاکستانی فوج میں گزشتہ ماہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی اسپیشل فورسز کے آپریشن کے بعد سے امریکہ مخالف جذبات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس امریکی کارروائی میں القاعدہ کا لیڈر اسامہ بن لادن مارا گیا تھا۔ امریکہ نے پاکستانی فوج اور خفیہ سروس آئی ایس آئی کو اپنے اس آپریشن کے بارے میں پیشگی اطلاع نہیں دی تھی، جس کے سبب پاکستان کے ان دونوں اداروں کے اندر گہری مایوسی اور ہتک کا احساس پایا جانے لگا۔ دوسری جانب پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو ہر طرف سے نااہلی اور اس پورے واقعے میں ملی بھگت جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ساکھ بہت کمزور ہو چکی ہے۔ایک نا معلوم امریکی اہلکارنےاخبار واشنگٹن پوسٹ کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا ’جنرل کیانی اپنے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، اُن کے کورکمانڈروں میں اس وقت امریکہ مخالف جذبات بہت زیادہ بھڑک اُٹھے ہیں اور کیانی کو انہیں خوش رکھنا ہے‘۔
ایک اور امریکی اہلکار کے مطابق’پاکستانی ملٹری میں قیادت کے ڈھانچے جنرل کیانی پر دباؤ غیر معمولی ہے۔ ان حالات کے بارے میں ناکافی اندازے نہیں لگائے جانے چاہییں۔
دریں اثناء امریکی قانون سازوں نے پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو 2001ء سے اب تک دی جانے والی 20 بلین ڈالر کی کُل امداد کے باوجود اسلام آباد کا رویہ بھروسے کے قابل نہیں ہے۔ امریکی قانون سازوں نے اُن پاکستانی مخبروں کی گرفتاری کی خبر کو بھی رد کر دیا ہے جنہوں نے امریکی خفیہ سروس سی آئی اے کو پاکستان میں بن لادن کے کمپاؤنڈ کے بارے میں اطلاعات فراہم کی تھیں۔
واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ کے مطابق ان میں پاکستانی فوج کا ایک ڈاکٹر میجر عامر عزیز بھی شامل تھا، جو ایبٹ آباد میں بن لادن کے گھر کے برابر والے بنگلے میں رہتا تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اس گھر میں آنے جانے والوں پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی، جبکہ پاکستانی فوج نے اس امر سے انکار کیا ہے کہ کسی پاکستانی فوجی کو ’ایبٹ آباد آپریشن‘ کے بعد حراست میں لیا گیا ہے۔
اسی دوران پاکستان نے واشنگٹن پر دباؤ میں اضافہ کرتا ہوئے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان اورافغانستان کے درمیانی سرحدی علاقوں میں ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کرے، کیونکہ پاکستان کے شورش زدہ قبائلی علاقے کی ڈیفنس فورسز کے لیے جاری امریکہ کے ’اسپیشل آپریشن ٹرینگ پروگرام‘ کا بڑا حصہ مکمل ہو چکا ہے۔ پاکستان نے سی آئی اے اور امریکی فوجی اہلکاروں کو جاری کردہ پاکستانی ویزے بھی منسوخ کرد یے ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک