پاکستان آزادیٴ صحافت میں بدستور بہت پیچھے
12 فروری 2015اس تنظیم کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں آزادیٴ صحافت تیزی سے رُو بہ زوال ہے۔ تنظیم کیی جانب سے جاری کی جانے والی سالانہ رپورٹ ’ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2015ء‘ کے مطابق گزشتہ برس دنیا کے 180 ممالک میں آزادیٴ صحافت کی خلاف ورزیوں کے 3719 واقعات رونما ہوئے۔
’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے اپنی درجہ بندی میں ایران، چین، شمالی کوریا اور شام کو صحافت کی آزادی کے حوالے سے بدترین ممالک قرار دیا ہے۔ یورپین ممالک فن لینڈ، ناروے، ڈنمارک، ہالیینڈ اور سویڈن کے علاوہ نیوزی لینڈ،کینیڈا اور جمیکا کو آزادیٴ صحافت کے حوالے سے بہترین ممالک کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔
پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے تحفط کے لیے مختلف غیر سرکاری تنظمیوں میں فعال کردار ادا کرنے والے عدنان رحمت کا کہنا ہے کہ ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی رپورٹ میں بھی پاکستان میں صحافت کو درپیش انہی خطرات کی عکاسی کی گئی ہے، جن کا ذکر دیگر بین الاقوامی تنظیمیں گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے کرتی آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سر فہرست ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے عدنان رحمت نے کہا:’’پاکستان میں سال 2014ء کے دوران ذرائع ابلاغ سے منسلک 14 لوگ مارے گئے، جن میں نو صحافی اور پانچ میڈیا ورکرز شامل تھے۔ یہ سال 2000ء کے بعد سے میڈیا کے لیے بدترین سال ثابت ہوا ۔‘‘
عدنان رحمت کے مطابق رواں برس اب تک صحافیوں پر حملوں کے چھ کیس سامنے آ چکے ہیں، جو کہ اس خطرناک صورتحال کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کا سامنا پاکستانی صحافیوں کو ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران 113 پاکستانی صحافی مارے جا چکے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک صحافی ولی بابر کے قاتلوں کے خلاف مقدمہ چلا ہے جبکہ دوسرا مقدمہ امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کا چلایا گیا۔
اپنے پیشے کی وجہ سے نامعلوم افراد کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے صحافی عمر چیمہ کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ صحافیوں کے خلاف تشدد کرنے والوں میں سے اکثریت کا بچ نکلنا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس وقت مجھے ذاتی طور پر فون کر کے میرے ساتھ پیشں آنے والے واقعے کی مذمت کی جبکہ موجودہ وزیر داخلہ چوہدری نثار جو اس وقت قائد حزب اختلاف تھے، نے قومی اسمبلی میں میرے معاملے پر آٹھ مرتبہ آواز اٹھائی اور یہ مطالبہ کیا کہ میرےساتھ پیش آنے والے واقعے پر قائم تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے لیکن وہ اب اس معاملے کو بھول چکے ہیں۔‘‘
عمر چیمہ نے مزید کہا کہ صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات پر بننے والے کمیشنوں کی رپورٹس اکثر منظر عام پر نہیں لائی جاتیں، اسی لیے آزادیٴ صحافت کے دشمن مختلف گروہ اپنی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحافیوں اور آزادیٴ صحافت کو مختلف ریاستی اور غیر ریاستی عناصر سے خطرات لاحق ہیں اور مختلف جگہوں پر کام کرنے والے صحافیوں کو لاحق خطرات کی نوعیت بھی مختلف ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک صحافیوں کے قاتلوں کو عبرتناک سزا نہیں ملتی، ایسے واقعات یونہی ہوتے رہیں گے۔