پاکستان: بیرون ملک جعلی تعلیمی داخلوں کا منافع بخش کاروبار
16 اکتوبر 2015’’کیا آپ یورپ میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ہم سے مشاورت کریں۔ ہم سینکڑوں غیر ملکی یونیورسٹیوں اور کالجوں سے وابستہ ہیں اور ہمارے ماہرین آپ کو انتہائی مفید معلومات فراہم کریں گے۔‘‘ کراچی شہر کے علاقے بہادر آباد میں نصب یہ بل بورڈ بہت سے طالب علموں کی توجہ کا مرکز بھی بنتا ہے۔ سینکڑوں طالب علم ایسی ہی مختلف کمپنیوں سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ انہیں برطانیہ کے کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ مل جائے، چاہے وہ جعلی ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے لیے یہ اہم نہیں کہ تعلیمی ادارے کی ساکھ کیسی ہے بلکہ وہ صرف پاکستان سے نکلنا چاہتے ہیں۔
یورپ تک آسان رسائی
چوبیس سالہ طالب علم علی رضا نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان میں ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔ یورپ کے بدترین کالج بھی ہماری یونیورسٹیوں سے بہتر ہیں۔‘‘ اقتصادیات کے طالب علم رضا نے مزید کہا، ’’ایسا امکان بھی ہے کہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ہمیں وہاں ورک پرمٹ مل جائے۔‘‘
پاکستان میں بالخصوص نوجوان نسل ملک سے نکل جانے کے لیے بے قرار ہے۔ ملک کی اقتصادی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور وہاں سکیورٹی کی صورتحال بھی مخدوش قرار دی جاتی ہے۔ نوجوانوں کا خیال ہے کہ مغربی ممالک میں رہائش کی طویل المدتی منصوبہ بندی کا پہلا زینہ وہاں کسی تعلمی ادارے میں داخلہ ہو سکتا ہے۔ اسی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی مشاورتی کمپنیاں زیادہ فعال ہو گئی ہیں، جو ان نوجوانوں کو جرمنی اور مغربی ممالک میں ’بہتر زندگی کے خوابوں‘ کی طرف مزید مائل کر رہی ہیں۔
یہ کمپنیاں طالب علموں کو ایسے اسکولوں میں داخلے دلوانے کے دعوے کرتی ہیں، جو صرف کاغذات پر ہی موجود ہوتے ہیں۔ ان کمپنیوں کے بیرونی ممالک میں جعلی تعلیمی اداروں یا ایجنٹوں سے رابطے بھی ہوتے ہیں۔
اسلام آباد کے ایک صحافی عبدل آغا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب میں لندن میں زیر تعلیم تھا تو میں ایک ایسے پاکستانی اسٹوڈنٹ سے ملا، جو کسی طرح جعلی داخلے پر برطانیہ کا ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔۔۔ لیکن ایسے لوگ لندن میں پڑھتے نہیں بلکہ جنوبی ایشائی ممالک کے باشندوں کی دوکانوں پر کام کرتے تھے۔‘‘
سخت پالیسیاں
حالیہ کچھ عرصے کے دوران یورپی ممالک نے پاکستانی طالب علموں کو ویزا جاری کرنے سے متعلق ضوابط میں سختی کر دی ہے۔ ساتھ ہی ایسی جعلی یونیورسٹیوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ جون میں ہی برطانوی حکومت نے 190 جعلی یونیورسٹیوں کے خلاف کارروائی کی تھی۔
برطانیہ میں یونیورسٹیوں اور سائنس کے ملکی وزیر جو جانسن کے مطابق، ’’یوں برطانیہ کی ساکھ کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے کہ یہاں اعلیٰ کوالٹی کی تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔‘‘ ان کے مطابق ایسا ایکشن حقدار طالب علموں کے علاوہ تعلیم فراہم کرنے والے جائز اداروں کے لیے بھی ضروری ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستانی طالب علم برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کو اولین ترجیح دیتے ہیں، جس کے بعد اسکنڈے نیویا کے ممالک اور پھر پولینڈ اور جرمنی آتے ہیں۔
جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل
رواں برس ہی جعلی ڈگریوں کے ایک بہت بڑے اسکینڈل نے پاکستان میں ہلچل مچا دی تھی۔ سترہ مئی کو نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مغربی ممالک کی سینکڑوں یونیورسٹیاں اور اسکول مختلف مضامین میں صرف آن لائن ہی ڈگریاں جاری کر رہے ہیں۔ ان میں سے 370 ادارے صرف کاغذات پر ہی موجود تھے۔ پاکستان میں اس اسکینڈل کی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔
حکومت کی طرف سے خاموشی
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام اور متعلقہ وزارتیں جعلی ڈگریاں جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں دلچپسی نہیں رکھتے۔ پاکستان کے اخبار ڈان سے وابستہ رپورٹر عرفان حیدر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’حکومت ایسی جعلی کمپنیوں کو بند کرنے کے حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کر رہی، جو طالب علموں کو غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلہ دلوانے کا کام کر رہی ہیں۔ یوں بالآخر طلبہ کا بہت زیادہ سرمایہ بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ ایک بڑا بزنس ہے۔‘‘
عرفان حیدر کے بقول اس طرح کے معاملات کی نگرانی وزارت تعلیم، وزارت داخلہ اور بین الصوبائی رابطوں کی ملکی وزارت کا کام ہے۔ تاہم عبدل آغا کے مطابق ایسی کمپنیاں خفیہ حکومتی معاونت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی، ’’یہ (کمپنیاں) حکومتی اہلکاروں کو رشوت دیتی ہیں۔ اس کاروبار میں بڑا سرمایا لگایا جاتا ہے۔‘‘
کچھ ماہرین کا البتہ یہ بھی کہنا ہے کہ سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں حکومت کی طرف سے جعلی ڈگریاں جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی مشکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور سکیورٹی کی مجموعی صورتحال بھی نوجوانوں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ پاکستان چھوڑ کر کسی دوسرے ملک نکل جائیں۔ اس صورتحال میں یہ طالب علم کوئی بھی راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔
علی رضا کہتے ہیں، ’’میں جانتا ہوں کہ یورپ میں زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ لیکن پاکستان میں کسی مسلح حملے میں مر جانے سے جرمنی میں (کسی ریستوران میں) برتن دھونا بہتر ہے۔‘‘