پاکستان: خوف کے سائے میں کرسمس کی تیاریاں جاری
22 دسمبر 2015پاکستان کے مختلف علاقوں میں کرسمس کی خریداری دیکھنے میں آ رہی ہے۔ کرسمس پارٹیوں کا سلسلہ بھی چل رہا ہے جبکہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کی طرف سے بھی کرسمس کیک کاٹنے کی تقریبات منعقد کرکے مسیحی برادری کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا جا رہا ہے۔
ایوان صدرسے لے کر پنجاب یونیورسٹی تک بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے کرسمس کے حوالے سے تقریبات منعقد کر رہے ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود لاہور کے علاقے گلبرگ کی ایک مسیحی بستی میں رہنے والے اخیم مسیح کہتے ہیں کہ اب کرسمس کے تہوار میں ماضی جیسی رونقیں نہیں رہیں۔
اخیم مسیح کے بقول ولادت مسیح کی خوشی میں منایا جانے والا یہ مذہبی تہوار اب دہشت گردی کے خوف کی نذر ہوتا جا رہا ہے اور کرسمس کی تقریبات اب محدود ہوتی جا رہی ہیں، ’چرچ میں زیادہ دیر رکیں تو ڈر لگنے لگتا ہے‘۔
لاہور میں اسی سال مارچ کے مہینے میں مسیحی بستی یوحنا آباد میں ہونے والی دہشت گردی کی ایک واردات کے بعد صورتحال ابھی معمول پر نہیں آ سکی تھی کہ اس کرسمس کے موقع پر بھی دہشت گردی کی ممکنہ وارداتوں کی اطلاعات گردش کرنا شروع ہو چکی ہیں۔
امریکا نے اس کرسمس کے موقع پر اسلام آباد میں موجود اپنے شہریوں کو غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلنے اور ریستورانوں میں زیادہ دیر تک نہ رکنے کا مشورہ دیتے ہوئے محتاط رہنے کا کہا ہے۔
اس ساری صورتحال کے باوجود گرجا گھروں میں خصوصی عبادات کا سلسلہ جاری ہے۔ مسیحی بستیوں کو رنگ برنگی روشنیوں سے سجایا جا رہا ہے اور لاہور کے ہوٹلوں، ریستورانوں اور دیگر مقامات پر کرسمس کیک اور سانتا کلاز کے ماڈل سجائے گے ہیں۔
لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے مسیحی برادری کے لیے سستے کرسمس بازار بھی لگائے ہیں۔ پنجاب حکومت نے کرسمس کے موقعے پر 6000 مسیحی خاندانوں کی مالی اعانت کے لیے پانچ ہزار روپے فی خاندان کے حساب سے کرسمس فنڈ دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔
مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ملازمین کے لیے پیشگی تنخواہ اور چھٹی کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی رکن پنجاب اسمبلی سنیلہ رتھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس مرتبہ کرسمس کے موقع پر خوف زیادہ ہے، ’’ اگرچہ حفاظتی اقدامات بھی بڑھا دیے گئے ہیں لیکن پھر بھی کوئی یہ نہیں جانتا کہ کس وقت کہاں کون ٹارگٹ بن جائے۔‘‘
سنیلہ کو البتہ خوشی ہے کہ مسلم برادری بھی مسیحی برادری کی خوشیوں میں شریک ہو رہی ہے، ’’میری اپنی جماعت کے چئیرمین عمران خان لاہور آئے، ہمارے ساتھ مل کر انہوں نے کرسمس کیک کاٹا اور ہماری خوشیوں میں شریک ہوئے، یہ مجھے بہت اچھا لگا۔‘‘
کچھ ایسی ہی صورتحال دیگر جماعتوں کی بھی ہے۔ اور تو اور جماعت اسلامی اور کئی دیگر مذہبی و سماجی جماعتیں بھی مسیحی برادری کی خوشیوں میں شریک ہو رہی ہیں۔ اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
سنیلہ رتھ کا کہنا ہے کہ کرسمس کے موقع پر کی جانے والی کارروائیاں بعض اوقات راوائتی سی لگتی ہیں۔ ان کے بقول، ’’کرسمس کے موقع پر بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہونی چاہیے۔ مسیحی ملازمین کو کرسمس کے موقع پر کم از کم ایک اضافی تنخواہ ضرور ملنی چاہیے۔ اس کے علاوہ حکومت کو نہ صرف کرسمس فنڈ کی رقم میں اضافہ کرنا چاہیے بلکہ اس کی کرسمس سے پہلے ادائیگی یقینی بنانا چاہیے۔‘‘
ایک مسیحی نوجوان زاہد غوری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کرسمس کے موقع پر کم از کم تین چھٹیاں ضرور ہونا چاہییں۔ ان کے بقول ایسٹر اور گڈ فرائی ڈے کے مواقع پر تو مسیحوں کو ایک چھٹی بھی نہیں ملتی۔ ان کے بقول مہنگائی کے اس زمانے میں کم وسائل والے مسیحیوں کے لیے کرسمس کی خوشیوں کے لیے تقریبات منعقد کرنا آسان نہیں ہے۔