پاکستان ربانی کیس کی تحقیقات میں مدد نہیں دے رہا، افغانستان
5 اکتوبر 2011ربانی کے قتل کی تحقیقات کے لیے افغان حکومت کے مقرر کردہ کمیشن کے ایک ترجمان ڈاکٹر ضیاء نے کہا کہ اگر پاکستان مدد نہیں کرتا تو افغانستان اقوام متحدہ سے اس معاملے میں مداخلت کے لیے اپیل کرے گا۔
اُدھر پاکستان نے کابل میں ربانی کے قتل کے بیس ستمبر کو رونما ہونے والے واقعے میں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اِس قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں تعاون کر رہا ہے۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے کہا:’’وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے کابل کے دورے کے موقع پر پروفیسر ربانی کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں تعاون کی پیشکش کی تھی ا ور پاکستان اپنی اس پیشکش پر قائم ہے۔‘‘
خود کُش حملہ آور نے خود کو طالبان کی گورننگ کونسل کی طرف سے بھیجا گیا ایلچی ظاہر کیا تھا لیکن ربانی کے قریب پہنچتے ہی اپنی پگڑی میں چھپے بم کا دھماکہ کر دیا تھا۔ افغان تحقیقاتی کمیشن کے ترجمان ڈاکٹر ضیاء کے مطابق پگڑی میں چھپے بم کی تکنیک اِس واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ڈاکٹر ضیاء نے، جو افغان انٹیلیجنس سروس کے نائب سربراہ بھی ہیں، کہا کہ پاکستان کے اِس واقعے میں ملوث ہونے کا اشارہ اس منصوبے کے مشتبہ سرغنے اور قتل کے اٹھارہ گھنٹے بعد گرفتار ہونے والے افغان شہری حمید اللہ اخونزادہ کے اعترافی بیان سے بھی ملتا ہے۔ ڈاکٹر ضیاء نے کہا:’’پاکستانی حکومت نے کابل میں اپنے سفارت خانے کے ذریعے ہمیں یہ پیغام بھجوایا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹر ضیاء کے مطابق غالباً پاکستان اُن بیانات سے خوش نہیں ہے، جو افغان حکام نے اس کیس کے حوالے سے میڈیا کو جاری کیے ہیں:’’اب ہمیں مدد کے لیے اقوام متحدہ کے پاس جانا پڑے گا۔‘‘
کابل میں ہونے والی اس پریس کانفرنس میں صحافیوں کو اخونزادہ کے اعترافی بیان کی بیس منٹ دورانیے کی ویڈیو بھی دکھائی گئی۔ اِس ویڈیو میں اخونزادہ کو کابل میں امن کونسل کے ارکان سے ملاقات اور پھر بات چیت کے نتائج سے طالبان رہنماؤں کو آگاہ کرنے کے لیے پاکستانی شہر کوئٹہ واپسی کا ذکر کرتے دکھایا گیا ہے۔
بعد ازاں اخونزادہ خود کُش بمبار کے ہمراہ، جو کہ اُس کے بقول عصمت اللہ نام کا ایک پاکستانی شہری ہے، بس کے ذریعے کابل آیا اور یہ کہ راستے میں اُنہوں نے قندھار میں اخونزادہ کے رشتے داروں کے ہاں قیام بھی کیا تھا۔ کابل پہنچ کر دونوں الگ الگ ہو گئے اور اخونزادہ کو بعد ازاں ایک دوست کی فون کال سے ربانی کے قتل ہو جانے کا پتہ چلا۔
اگرچہ ڈاکٹر ضیاء نے اِس واقعے کے لیے براہ راست پاکستانی خفیہ ادارے کو قصور وار نہیں ٹھہرایا تاہم وزیر داخلہ بسم اللہ خان محمدی نے یکم اکتوبر کو ہی افغان پارلیمان کے ایک اجلاس میں یہ کہہ دیا تھا کہ ربانی کے قتل میں آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔
اتوار کو پاکستانی وزارت خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا:’’اِس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات جاری کرنے کی بجائے کابل حکام کو سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اُن تمام افغان شہریوں کو کیوں منصوبہ بندی کے ساتھ راستے سے ہٹایا اور قتل کیا جا رہا ہے، جو امن کے اور پاکستان کے حق میں ہیں۔‘‘
منگل کو افغان صدر حامد کرزئی نے نئی دہلی میں بھارت کے ساتھ جس اسٹریٹیجک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، اُس کے نتیجے میں افغانستان کے اپنے ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید سرد مہری کا شکار ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عدنان اسحاق