پاکستان: وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شہباز شریف کو سبقت
14 فروری 2024پاکستان میں عام انتخابات کے بعد غیر یقینی سیاسی صورتحال سے بادل چھٹتے نظر آ رہے ہیں اور اب تقریباً یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کے بجائے ان کے چھوٹے بھائی اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف دوبارہ وزارت عظمیٰ کا عہد سنبھالیں گے۔
سیاسی حریفوں کے ساتھ اتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، عمران خان
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اس اتحاد میں پی ٹی آئی کے علاوہ ایم کیو ایم اور ق لیگ کے ساتھ بعض دیگر جماعتیں بھی شامل ہیں۔ اس اتحاد نے منگل کی رات کو مرکز اور صوبوں میں نئی حکومتیں تشکیل دینے کا اعلان کیا۔
پاکستان: انتخابی نتائج میں مبینہ دھاندلی کے خلاف بلوچستان میں احتجاج
پاکستانی پارلیمان میں 265 نشستیں ہیں، جس میں سے مسلم لیگ (ن) کے پاس 75 اور پیپلز پارٹی کے پاس 54 نشستیں ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر جماعتوں کے بعض اراکین کے ساتھ مل کر یہ مجوزہ مخلوط حکومت سادہ اکثریت آسانی سے حاصل کر سکے گی۔
پاکستان انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی تفتیش کرے، امریکہ
ایسا لگتا تھا کہ ملک میں انتخابات سے قبل 'پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ' (پی ڈی ایم) نامی جو اتحاد حکومت کر رہا تھا، اور عین الیکشن سے قبل ٹوٹ گیا تھا، وہی اب پھر سے ایک ساتھ مل کر حکومت بنانے جا رہا ہے۔
پریس کانفرنس میں کس نے کیا کہا؟
اسلام آباد میں منگل کی رات کو مشترکہ پریس کانفرنس چودھری شجاعت حسین کے گھر پر ہوئی، جس میں حکومت سازی کے حوالے سے اہم اعلانات کیے گئے۔
پریس کانفرنس کے اختتام پر مریم نواز نے اپنے سوشل میڈیا ایکس کے ہینڈل سے پوسٹ میں لکھا، ''پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد جناب محمد نواز شریف نے وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عہدے کے لیے جناب محمد شہباز شریف کو نامزد کر دیا ہے، جبکہ وزیر اعلی پنجاب کے عہدے کے لیے مریم نواز شریف کو نامزد کیا گیا ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''جناب محمد نواز شریف نے پاکستان کے عوام اور سیاسی تعاون فراہم کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے اس پختہ یقین کا اظہار کیا ہے کہ ان فیصلوں کے نتیجے میں پاکستان معاشی خطرات، عوام مہنگائی سے نجات پائے گا۔''
مسٹر زرداری نے اس موقع پر کہا، ''ہم پاکستان کو مشکل وقت سے نکالیں گے۔'' انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ جمع ہونے والے سیاسی رہنماؤں نے مل کر حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
البتہ بلاول بھٹو زرداری کے بعض بیانات کے مطابق پیپلز پارٹی شہباز شریف حکومت کی حمایت کرے گی اور فی الوقت اس مخلوط حکومت کی کابینہ کا حصہ نہیں ہو گی۔
آصف زرداری نے پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کو بھی اس سیاسی مفاہمت کا حصہ بننے کی دعوت دی اور کہا، ''ایسا نہیں ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی مفاہمت میں نہ آئے۔ اسے اور ہر سیاسی قوت کو آ کر ہم سے بات کرنی چاہیے۔ ہمارا اقتصادی اور دفاعی ایجنڈا مشترکہ ہونا چاہیے، تاکہ ہم پاکستان کو کامیاب کر سکیں۔''
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جو پارٹیاں پریس کانفرنس میں موجود ہیں وہ پارلیمنٹ میں ''تقریبا دو تہائی اکثریت'' کی نمائندگی کرتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ آصف زرداری پاکستان کے اگلے صدر ہو سکتے ہیں۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا پیپلز پارٹی کے رہنما ملک کے اگلے سربراہ مملکت ہوں گے تو انہوں نے کہا: ''ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔''
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو بھی اپنی حکومت میں شامل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''بھول جاؤ اور معاف کرو، معاف کرو اور بھول جاؤ - آؤ ملک کی بہتری کے لیے ہاتھ ملائیں۔ خود کے مفادات کو قربان کریں، انا کے مسئلے کو ایک طرف رکھیں۔''
البتہ عمران خان نے دن میں پہلے ہی اس امکان کو مسترد کر دیا تھا۔ دارالحکومت اسلام آباد کے باہر اڈیالہ جیل میں عدالت میں پیشی کے دوران گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ان کی جماعت نہ تو مسلم لیگ ن کے ساتھ بیٹھے گی اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ۔
پھر وہی ڈھاک کے تین پات
بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر اور برطانیہ اور آئرلینڈ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر اکبر احمد نے خبردار کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ اتحادی معاہدہ ''پھر وہی ڈھاک کے تین پات'' والی بات ہے، کیونکہ یہ ایک کمزور مخلوط حکومت کو ایک مضبوط اور غیر مطمئن پی ٹی آئی کے اپوزیشن اور اس کے حامیوں کے خلاف کھڑا کر دے گا۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے احمد نے کہا کہ اگر شہباز شریف حقیقت میں دوبارہ وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو اس کا طلب یہ ہے کہ زرداری ایک بار پھر صدر بن جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسے ان شخصیات کی واپسی کے طور پر دیکھا جائے گا، جن پر عمران خان کرپٹ اور نااہل ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔
احمد نے کہا، ''آپ کے پاس نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ ہے، جو حکومت بنا رہی ہے، لیکن یہ ہمیشہ ایک کمزور حکومت رہے گی، کیونکہ وہ مسلسل اپنی اتحادی پارٹنر پیپلز پارٹی پر انحصار کرے گی، جو کہ در حقیقت عہدہ صدارت کا مطالبہ کر رہی ہے۔''
احمد نے یہ بھی کہا کہ خان کی بطور وزیر اعظم برطرفی کے بعد سے پاکستان میں جاری متنازعہ مہم اور پی ٹی آئی کی جانب سے اس کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں شکایات نے پاکستانی عوام کے ''غصے'' کو جگا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا، ''یہ غصہ ختم نہیں ہونے والا ہے'' جب تک کہ نئی حکومت کچھ واضح مسائل کو حل نہیں کرتی۔
انہوں نے سیاست میں پاکستان کی بااثر فوج کے کردار کو بھی تسلیم کیا۔ ''فوج تو موجود ہے، لیکن خفیہ طور پر ہے، جیسا کہ وہ تھی، لیکن اس کے ساتھ ہی عوام اس کی طاقت اور اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ "
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے کی پولنگ کے بعد فوج پر عوامی تنقید میں ماضی سے بھی کہیں زیادہ زوردار آواز تھی۔''
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)