پاکستان میں افغان مہاجرین بھی مشکلات کا شکار
6 اپریل 2020پاکستان میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں تعمیر کیے گئے مہاجر کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔ ان مہاجرین کی اکثریت یومیہ اجرت پر مزدوری کرتی ہے۔ لاک ڈوان کی وجہ سے جہاں تمام بازار بند ہیں وہاں نقل و حمل پر بھی مکمل پابندی ہے۔ روزگار کی غرض سے شہری علاقوں میں آنے والے مزدور بھی گذشتہ دو ہفتوں سے اپنے گھروں میں محصور ہیں۔
پشاور کینٹ کے چوک فوراہ میں کندھے پر رسی ڈالے افغان مہاجر عبدالحسیب نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا ''دو ہفتے سے شہر کی بندش کی وجہ سے مزدوری بھی نہیں ہے البتہ مخیر افراد کچھ نہ کچھ دے جاتے ہیں۔‘‘ عبدالحسیب کے مطابق کورونا وائرس سے وہ خود تو محفوظ رہ سکتے ہیں لیکن مزدوری نہ ہونے کے باعث ان کے بچے بھوک سے مرجائیں گے۔ ان کے بقول، ''مزدوری نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتے اس لیے پیدل چل کر چوک پر روزگار کی امید میں بیٹھے ہیں۔
ماضی میں اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے لیے امداد فراہم کرتا رہا ہے تاہم ایک عرصے سے ان کی جانب سے بھی امداد کی فراہمی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ 'یو این ایچ سی آر‘ کے ترجمان قیصر آفریدی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ کورونا وائرس کی وبا سے دوچار ان حالات میں 'یو این ایچ سی آر‘ افغان مہاجرین کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مہاجر کیمپوں سے تین ہزار افغان رضاکاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو گھر گھر جا کر آگاہی مہم چلا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان اور بھارت کورونا کی تشخیص کے عمل میں بہت پیچھے
قیصر آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ یو این ایچ سی آر کی جانب سے صوبائی حکومت کو پندرہ ایمبولینس، طبی سامان، جراثیم کشی کے لیے استعمال کیے جانے والے سینی ٹائزرز، قرنطینہ کے لیے بڑے ٹینٹ اور ہاؤسنگ یونٹ فراہم کیے گئے ہیں۔ آفریدی کے بقول ''کیمپوں میں بعض غیر سرکاری تنظیمیں بھی اشیائے ضروریات تقسیم کر رہی ہیں جبکہ مزید امداد کے لیے بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔‘‘
دوسری جانب پاکستان کے وزیر برائے سیفران شہریار آفریدی کا کہنا ہے کہ پاکستان مالی مشکلات کے باوجود افغان مہاجرین کی مدد کر رہا ہے۔ تاہم انہوں نے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں افغان مہاجرین کے لیے اشیائے ضرورت کی فراہمی میں تعاون کرے۔ شہریار آفریدی کے مطابق ''کیمپوں میں رہائش پذیر افغان باشندوں کو خوراک اور ادویات کی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان اپنے محدود وسائل میں انہیں ضرورت کی اشیات تو فراہم کر رہا ہے لیکن اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں مدد کے لیے آگے بڑھیں۔‘‘
یہ بھی پڑھیے: کورونا وائرس کا خطرہ: پاک افغان سرحد بند
یاد رہے پاکستان میں چودہ لاکھ رجسٹرڈ جبکہ اتنے ہی غیر قانونی طور پر افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد واپس افغانستان جانے کے لیے تیار ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پاک افغان سرحدیں فروری کے اواخر سے بند کی گئیں تھی تاہم آج افغان حکومت کی درخواست پر پاک افغان سرحدیں تین دن کے لیے کھول دی گئیں ہیں جس میں طورخم بارڈر بھی شامل ہے۔ اطلاعات کے مطابق روزانہ ایک ہزار افغان باشندوں کو واپس جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ ان کے لیے انتظامات مکمل کیے گئے ہیں۔ آج صبح سے ہی سینکڑوں کی تعداد مین افغان مہاجرین اپنے ملک جانے کے لیے قطاروں میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔