1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستان میں اقتصادی حالت اچھی تھی لیکن محفوظ نہیں تھے‘

عاطف بلوچ عبدالستار خان، اسلام آباد
8 جولائی 2020

سات سال قبل حیدر آباد سے بھارت جانے والے پاکستانی ہندو دھرم ویر سولانکی کا کہنا ہے کہ جیسے ہی وہ بھارتی سرحدی حدود میں داخل ہوئے تھے تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ لیکن کیا وہ اب بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں؟

https://p.dw.com/p/3exDK
Indien | Geflüchtete pakistanische Hindus in Neu-Delhi
بھارت مہاجرت کرنے والے ایشور لال اور آراتی دیوی نے اپنی بچی کا نام ناگریکتا رکھا ہے، جس کا اردو میں مطلب ’شہریت‘ بنتا ہے۔تصویر: Reuters/A. Fadnavis

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے نواح میں قائم ایک کچی آبادی میں سکونت پذیر دھرم ویر سولانکی نے بتایا کہ جب وہ سات برس قبل پاکستان چھوڑ کر بھارت آئے تھے تو انہیں احساس ہوا تھا کہ ’انہوں نے ایک نیا جنم لے لیا ہے‘۔

اس علاقے میں ایسے متعدد پاکستانی ہندو سکونت پذیر ہیں، جو اپنا گھر چھوڑ کر بھارت آ کر آباد ہو گئے تھے۔ ان ہندوؤں کا موقف ہے کہ پاکستان میں انہیں متعدد اقسام کے مذہبی مسائل کا سامنا تھا، اس لیے وہ پاکستان سے نقل مکانی اختیار کرتے ہوئے بھارت آئے ہیں۔

تاہم صوبہ سندھ کے شہر میٹاری سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور ہندو کمیونٹی کے فعال رکن کرشن شرما نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں اقلیتوں کی صورتحال میں بہتری آ رہی ہے، ’’دنیا میں ہر جگہ اقلیتوں کے لیے مسائل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل بھی ہیں لیکن حالیہ کچھ عرصے میں صورتحال بہتر ہوئی ہے اور پاکستان میں ہندو کمیونٹی خوشی سے زندگی گزار رہی ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: صرف ہندو لڑکیاں ہی کیوں مسلمان ہو رہی ہیں؟

گھوٹکی میں قائم سناتن سوشل ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر تکرام راجپوت نے بھی ایسے خبروں کو مسترد کر دیا ہے کہ پاکستانی ہندوؤں کو وسیع پیمانے پر استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کے ہندو اور مسلمان صدیوں سے ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں، ’’گھوٹکی یا سندھ کے کچھ علاقوں میں کچھ پریشان کن واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن یہ معمول کی بات نہیں ہے۔‘‘

بھارت کا متنازعہ قانون اور مسلمانوں کا احتجاج

پناہ کے متلاشی دھرم ویر کو اس متنازعہ قانون کا فائدہ حاصل ہوا ہے، جو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے گزشتہ برس منظور کیا تھا۔

اس متنازعہ قانون کے تحت سن دو ہزار پندرہ سے قبل مسلم اکثریتی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے ہندوستان آنے والے چھ اقلیتی گروپوں کے افراد کو ملکی شہریت دینے کی منطوری دی گئی تھی۔ تاہم مسلمانوں کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

ناقدین کے مطابق یہ قانون مذہبی بنیادوں پر تیارہ کردہ ہے، جس سے بھارت میں مسلم کمیونٹی کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد بھارت بھر میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جس میں بھارتی مسلمانوں کے ہمراہ لبرل ہندو اور دیگر مذاہب کے افراد بھی پیش پیش رہے۔ تاہم کورونا وائرس کی عالمی وبا اور پھر لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ احتجاج تھم گیا۔

یہ بھی پڑھیے: مندر کی تعمیر کی مخالفت: ’یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟‘

'بھارت سیکولر و لبرل نہیں رہا‘

بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق گزشتہ پندرہ ماہ کے دوران تقریبا سولہ ہزار 121 پاکستانیوں نے طویل المدتی ویزوں کی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران پاکستانی باشندوں کو بھارتی ویزا ملنے کی شرح بھی بڑھی ہے اور یہ اعدادوشمار سینکڑوں سے ہزاروں میں چلے گئے ہیں۔

دھرم ویر کے مطابق بہت سے پاکستانی ہندو بھارت آنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ پاکستانی ہندو پچیس دنوں کے یاترا ویزے پر بھارت آتے ہیں اور پھر بھارت پہنچ کر وہ شہریت نہ ملنے تک یہیں رکے رہتے ہیں۔ دھرم ویر کو ابھی تک بھارتی شہریت نہیں ملی ہے لیکن اس کا کیس چل رہا ہے اور وہ پرامید ہے۔

تقریبا چھ سو افراد پر مشتمل اس کچی آبادی میں مقیم زیادہ تر پاکستانی ہندوؤں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ان کی اقتصادی حالت زیادہ اچھی تھی لیکن وہ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے تھے۔

کرشن شرما نے مزید کہا کہ بھارت میں بھی مسلمانوں اور مسیحی کمیونٹی کے علاوہ دلت اور ’نچلی ذات‘ کے ہندوؤں کے لیے حالات اچھے نہیں ہیں، ’’مودی کی حکومت میں حالات میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور اب بھارت ویسا لبرل اور سیکولر ملک نہیں رہا، جیسا کہ پہلے اس کے بارے میں کہا جاتا تھا۔‘‘

کٹر نظریات کے ہندو فعال

نرما باگری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ان کا خاندان محفوظ نہیں تھا، ’’کم از کم یہاں ہماری بیٹیاں تو محفوظ ہیں۔ ہم آزادانہ طور پر اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل بھی کر سکتے ہیں۔‘‘ پینتس سالہ نرما کے بقول بھارت کے ہندو ان کی مدد کر رہے ہیں۔

ہندو خیرات کے طور پر ان کچی آبادیوں میں ابتر صورتحال میں سکونت پذیر پاکستانی ہندوؤں کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان علاقوں میں انتہائی دائیں بازو کے ہندو بھی امدادی کاموں میں حصہ لے رہے ہیں۔

ویشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ایک کارکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ مہاجر بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے۔ دھرم ویر کے مطابق ’یہ لوگ ہمیں ایک نئی زندگی شروع کرنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیے: گھوٹکی مندر میں توڑ پھوڑ پر پاکستانیوں میں غم و غصہ

وی ایچ پی وہی کٹر ہندو گروپ ہے، جو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کا اتحادی ہے۔ اس انتہا پسند گروہ پر الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ وہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہوئے حملوں میں ملوث ہے۔

کرشن شرما کا یہ کہنا ہے کہ بھارت میں دائیں بازو کی ہندو تنظیمیں مہاجرت کے اس معاملے کو ہوا دے رہی ہیں لیکن حقیقت میں جو پاکستانی ہندو بھارت گئے ہیں، ان کی زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے اور وہ وہاں ابتر حالات میں رہ رہے ہیں، ’’اس لیے میں ایسے دعوؤں پر یقین نہیں رکھتا کہ پاکستان میں ہندو کمیونٹی کا بڑے پیمانے پر استحصال جاری ہے۔‘‘

تکرام راجپوت نے بھی ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں اسی خیال کا اظہار کیا، ’ہم اپنی حکومت سے مطمئن ہیں اور یہ نہیں چاہتے کہ بھارتی انتہاپسند ہندو مہاجرت کے اس مسئلے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔‘‘

پاکستان میں ہزار سال پرانا مندر دوبارہ کھول دیا گیا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں