1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں تخلیقی عمل اور جدت پسندی کے فقدان کے اسباب

21 اپریل 2018

کسی بھی معاشرے میں تخلیقی عمل اور جدت پسندی کا انحصار انفرادی آزادیوں، صحت مند مقابلے، آزادی اظہار کے تنوع اور باہمی برداشت کی وسعت پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں انہی عوامل کی کمیابی کے باعث جدت پسندی کا فقدان پایا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2wRBQ
Pakistan Islamabad - Studenten
تصویر: DW/I. Jabeen

آج اکیس اپریل بروز ہفتہ اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا  بھر میں تخلیقی سوچ اور جدت پسندی کی حوصلہ افزائی کے عالمی دن کے طور پر منایا جا رہا ہے، جس کا مقصد عمومی معاشرتی جدت اور ترقی کے لیے مختلف اور نئی سوچوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے کیونکہ نئے امکانات نئے راستوں پر چلنے سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں عام لوگوں خاص طور پر نوجوانوں میں پائی جانے والی تخلیقی اور جدت پسندانہ سوچ کی صورتحال کیا ہے، اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’یہ سچ ہے کہ پاکستان میں نئی نسل میں بالعموم جدت پسندی کم ہی ہے۔ البتہ قبائلی علاقوں کے رہائشی کچھ لوگ، جنہوں نے بڑی تکلیفیں اور مصیبتیں دیکھی ہوتی ہیں، ان میں ایسی سوچ اور جذبہ کچھ زیادہ نظر آتا ہے۔ معاشرے کے مرکزی دھارے اور علم و حکمت کے مراکز کے طور پر یونیورسٹیوں کو دیکھیں تو وہاں تو تخلیقی سوچ کا فقدان واضح نظر آتا ہے جبکہ عمومی سوچ بڑی سطحی اور تجزیے کھوکھلے ہوتے ہیں۔‘‘

پاکستانی نژاد امریکی فنکار کی تخلیق نیویارک کے میوزیم میں

نئے پاکستانی فلم ساز، تخلیقی بلندیوں کا سفر جاری

فنکار جدت پسند اور انقلابی ہوتا ہے، فیقا

لیکن کسی معاشرے میں ہر طرح کی تخلیق اور تخلیقی عمل کی حوصلہ افزائی کس کی ذمے داری ہوتی ہے، اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا، ’’پاکستانیوں کے لیے بھی موقع موجود ہے کہ وہ اپنے ملک کو ایک جدید اور کھلا معاشرہ بنا سکیں۔ لیکن یہ موقع تو تبھی استعمال ہو سکے گا جب اس کی سمجھ بھی ہو گی۔ محض سطحی رویوں کے ساتھ تو کوئی معاشرہ فری سوسائٹی نہیں بنتا۔ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک پاکستانیوں کو زیادہ فعال ہو کر اپنی کوششوں اور ان کے نتائج کو سب کے سامنے لانا ہو گا۔ لیکن یہ ذمہ داری محض تخلیق کاروں کی نہیں۔ یہ فرض حکومت کا بھی ہے اور میڈیا کا بھی۔ اب جس معیار سے اور جس رخ میں پاکستانی میڈیا جا رہا ہے، وہ تو تباہ کن ہے۔‘‘

تخلیق کے لیے سماجی ماحول کی ضرورت

کسی معاشرے میں تخلیق اور جدت پسندی کے لیے سماجی ماحول اور مجموعی صورت حال بھی سازگار ہونے چاہییں۔ کیا پاکستانی معاشرہ اس وقت ویسا ہے، جیسا وہ ممکنہ طور پر ہو سکتا تھا، ڈی ڈبلیو نے یہ سوال پوچھا فیصل بزدار سے، جو یونیورسٹی کی سطح پر درس و تدریس کے شعبے سے بھی منسلک ہیں اور پاکستان کی مجموعی صورت حال پر قریب سے نظر بھی رکھتے ہیں۔ فیصل بزدار نے کہا، ’’جدت پسندی کی ترویج صحت مند مقابلے کے رجحان سے ہوتی ہے۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ پاکستان میں زیادہ تر  ایسا صحت مند ماحول پایا جاتا ہے۔ رجعت پسند معاشرے میں بڑے پیمانے پر تخلیقی عمل نشو و نما پا ہی نہیں سکتا۔ جب تک لوگ رسک نہیں لیں گے، نئے رجحانات کو آزمایا نہیں جائے گا اور آرٹ، کلچر، ادب میں نئے تخلیقی رجحانات آگے نہیں بڑھائے جائیں گے، تب تک معاشرہ ایک دقیانوسی شکنجے میں جکڑا ہی رہے گا۔‘‘

فیصل بزدار کے مطابق، ‘‘پاکستان ہو یا کوئی بھی دوسرا معاشرہ، ترقی اسی وقت ہوتی ہے، جب وہاں کے لوگ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور اس تخلیقی جدت پسندی میں ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تو ایسی حوصلہ افزائی کا رواج ہی نہیں۔‘‘

پاکستان میں اسی جدت پسندی اور تخلیقی عمل کے لیے اجتماعی زندگی کے حالات کتنے سازگار ہیں، اس بارے میں ماہر عمرانیات ذوالفقار راؤ نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹریو میں کہا، ’’ہمارا معاشرہ تقلید پسندی کو زیادہ پسند کرتا ہے، یعنی جو چیز آپ کو بتا دی گئی ہے، امید ہوتی ہے کہ آپ کو ویسا ہی کرنا چاہیے۔ اساتذہ سے لے کر مذہب تک، جو بھی بتایا جائے، وہی مانا جائے۔ ہمارا پورا فلسفہ تعلیم یہ ہے کہ جو استاد بتاتا ہے، بس وہی ٹھیک ہے۔ بچوں کو شروع سے ہی یہ عادت ڈال دی جاتی ہے کہ جو کچھ  بتایا جائے، وہی سچ اور حتمی ہے۔ اس سے زیادہ جاننے یا سوچنے کی ضرورت نہیں۔ ایسے معاشروں کی پاکستان کوئی واحد مثال نہیں ہے۔ کئی دیگر معاشرے بھی ایسے ہیں، جہاں تقلید پسندی زیادہ ہے اور تخلیقی عمل اور جدت پسندی کم۔ اسی لے ایسے معاشروں میں خال خال ہی ایسے بچے نکلتے ہیں، جیسی لاہور کی ایک بہت کم عمر سرٹیفائیڈ مائیکروسافٹ انجینئر بچی۔‘‘

پاکستان میں نویں قومی آرٹ نمائش، عہد ساز فنکاروں کے نام

ذوالفقار راؤ نے اس حقیقت کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے میں اس بگاڑ کی وجہ کیا ہے؟ بڑی وجوہات ایک دو نہیں بلکہ تین ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ جو لوگ کسی معاشرے میں اخلاقیات طے کرتے ہیں، وہ خود کون ہیں اور کیسے ہیں؟ ہمارا ماحول اور ثقافت عموما کسی نئے تخلیقی رویے یا جدت پسندی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ قریب سبھی معاملات کا تعین مذہب کرتا ہے۔ یعنی جو کچھ بھی نکلے گا، مذہب سے نکلے گا۔ مذہب کی تشہیر و تشریح کرنے والے خود رجعت پسند ہیں، جو جدت پسندی اور تخلیق کاری کو نہ تو پسند کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی ترویج۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نئی نسل کو تعلیم کن خطوط پر دی جا رہی ہے؟ تعلیم نئے راستے اور نئے امکانات دکھاتے ہوئے دماغوں کا کھول رہی ہے یا روش وہی پرانی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ جب بات بنی بنائی اور کوئی رائے پہلے سے موجود ہو، جس کی تقلید کی توقع بھی کی جاتی ہو، تو اکثر انسان غیر معمولی کوششوں، ذاتی انفرادیت اور نئی سوچ سے دور ہونا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘

تعلیمی اداروں کی اہمیت

یونیورسٹیاں عام طور پر تخلیقی جدت پسندی اور نئی تحقیق کا مرکز ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اکثر یونیورسٹیوں میں یہ صورتحال کیسی ہے؟ یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم کچھ نوجوانوں سے بھی ان کی رائے معلوم کی۔ اسلام آباد کی کام سیٹ یونیورسٹی کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طالبہ سعدیہ خان کا کہنا تھا کہ انہیں تخلیقی صلاحیتوں اور جدت پسندی کا فروغ اصولی طور پر تو پاکستانی یونیورسٹیوں میں ںظر نہیں آتا۔ اب لیکن کچھ بہتری بھی آ رہی ہے۔

کچھ یونیورسٹیوں اور غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں نے مل کر ملک کے چند بڑے شہروں میں ‘‘انکیوبیٹرز'' قائم کیے ہیں۔ سعدیہ خان کے بقول انکیوبیٹر ایک ایسی جگہ ہوتی ہے، جہاں سائنسی سطح پر تخلیق اور جدت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اگر کسی اسٹودنٹ کے پاس کوئی آئیڈیا ہوتا ہے، تو وہ اسے وہاں جا کر پیش کرتا ہے۔ آئیڈیا قائل کر دینے والا ہو، تو اسے انکیوبیٹر میں ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلے تو اس آئیڈیا کو کسی پارٹنرشپ کے ساتھ آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس نئے رجحان سے کئی نوجوان فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

پاکستانی دارالحکومت کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے انجینئرنگ کے طالب علم کاشف شیخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موجودہ دور میں یونیورسٹیاں پہلے کے مقابلے میں زیادہ تنگ نظر ہوتی جا رہی ہیں۔ طالب علموں کو نہ تو پوری طرح اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں آزادی رائے کا حق دیا جاتا ہے۔

کاشف شیخ نے گزشتہ برس مردان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے جھوٹے الزام کے بعد قتل کر دیے جانے والے طالب علم مشال خان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ مشال تو کسی تخلیقی سوچ یا غیر معمولی جدت پسندی کا مظاہرہ نہیں کر رہا تھا۔ وہ صرف ایک روشن خیال نوجوان تھا، جس کی سوچ اچھی تھی اور وہ چیزوں کو سمجھتا بھی تھا۔ اسے محض سچ بولنے پر قتل کر دیا گیا۔ ‘‘اس کے علاوہ کئی یونیورسٹیوں میں تو لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ گھوم بھی نہیں سکتے۔ لباس پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ چال چلن پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ آپ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولیں، تو اس کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ تو پھر کسی جدت پسندی یا تخلیقی عمل کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟‘‘

پاکستانی ادب کے ڈیجیٹل رنگ

فیس بک نہیں ، ملت فیس بک

بہت سے پاکستانی نوجوان خود کو دستیاب مواقع کو اپنے طور پر بہتر سے بہتر انداز میں استعمال کرنے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ سیدہ اقرا گیلانی کام سیٹ یونیورسٹی کی بیچلرز فناس کی طالبہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہماری یونیورسٹی میں تخلیقی سوچ کی حوصلہ افزائی اور جدت پسندی کا کافی زیادہ رجحان ہے۔ میں آج کل ایک چھوٹے گھریلو بزنس کے طریقے سیکھ رہی ہوں۔ یونیورسٹی میں یہ میرا آخری سمسٹر ہے۔ اس کے بعد میں اس قابل ہو جاؤں گی کہ اپنا کوئی چھوٹا سا بزنس چلا سکوں۔ ٹیچرز حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور میں بھی اپنی سوچ اور ارادوں کو عملی رنگ دینے کے لیے کوشاں ہوں۔‘‘

Pakistan Islamabad - Jawad.Sharif, Artist
جواد شریف ٹی وی ڈراموں کے علاوہ کئی کامیاب دستاویزی فلمیں بھی بنا چکے ہیںتصویر: DW/I. Jabeen

رجعت پسندانہ معاشرہ ایک رکاوٹ

موجودہ پاکستانی معاشرے میں کچھ متاثر کن مثالیں ایسی بھی ہیں کہ مشکلات کے باوجود اور نامواقف حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے بہت سے جدت پسند خود کو منوا بھی رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک نام نوجوان فلم میکر اور ڈائریکٹر جواد شریف کا بھی ہے۔ انہوں نے اپنے کئی دیگر پروجیکٹس کے علاوہ ایسے سازوں پر ایک تفصیلی دستاویزی فلم بھی بنائی، جو ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن رجعت پسندانہ معاشرے کی وجہ سے انہیں اس دستاویزی فلم کی پبلک ریلیز کےعمل میں خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔

جواد شریف کو، جو ٹی وی ڈراموں کے علاوہ کئی کامیاب دستاویزی فلمیں بھی بنا چکے ہیں، کئی ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے ہاں رجعت پسندی کا دور دورہ ہے اور تخلیقی صلاحیتوں کو دبانے اور دھمکانے کا رواج ہے۔ جب کوئی پراجیکٹ دیا جاتا ہے، تو ساتھ ہی کہا جاتا ہے کہ صرف دھیان یہ رکھنا ہے کہ بس اس پروڈکٹ کو مارکیٹ میں بیچنا ہے۔ تو ایسے میں کسی غیر معمولی تخلیق یا جدت پسندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ایسی سوچ کے تحت جو بھی کام کیا جائے گا، وہ بس کاروباری نوعیت کا اور سطحی ہو گا۔ میں نے اپنے طور پر عام تقلیدی سوچ سے ہٹ کر کام کیا ہے اور رجعت پسندی کی بجائے فکری جدت پسندی کو رواج دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘‘

مجیبہ بتول قائد اعظم یونیورسٹی سے جینڈر سٹڈیز میں ماسٹرز کر رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرا یہ مسئلہ ہے کہ یونیورسٹی میں صوفی ازم کی طرف مائل کرنے کی بہت کوشش کی جاتی ہے۔ ہر کسی کو بس صوفی ازم اپنا لینا چاہیے۔ جو اختلاف کرتا ہے، بحث کرتا ہے، اسے خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں اس کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جانے لگے۔ مکالمت کی تو کوئی روایت ہی نہیں۔ اگر مکالمت ہو گی، ہر کسی کی بات مساوی طور پر سنی اور سمجھی جائے گی، تو مثبت ماحول میں تخلیقی رویے پیدا ہوں گے۔ لیکن ہمارے تو معاشرے میں بھی زیادہ تر نہ اس کی اجازت ہے اور نہ کوئی رواج۔ سوال کرنے والے اپنی بات کو درست تسلیم کروانے کی کوشش کریں، تو اسے بدتمیزی سمجھا جا سکتا ہے، استاد کی انا مجروح ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے کسی طالب علم یا طالبہ کے ساتھ تعلیمی حوالے سے ناانصافی کی جائے یا اسے یونیورسٹی سے ہی نکال دیا جائے۔ اساتذہ اسٹوڈنٹس کے رویوں تک کی مارکنگ کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اکثر اسٹوڈنٹس ڈائیلاگ کے بجائے تقلیدی طرز عمل اپناتے ہیں تاکہ بس اچھے نمبروں سے پاس ہو جائیں اور ڈگری مل جائے، حالانکہ تعلیم وتدریس کا صحیحح طریقہ تو مکالمت ہی ہے۔‘‘