پاکستان میں زچہ بچہ کی زندگیوں کو لاحق خطرات
24 ستمبر 2010پاکستان کے حالیہ سیلابوں نے دو کروڑ دس لاکھ انسانوں کو متاثر کیا ہے- گھر بار سے محروم اور بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کی جنگ کرنے والے ان انسانوں میں کم از کم پانچ لاکھ ایسی خواتین بھی شامل ہیں جنہیں اپنی زندگیوں اور صحت سے زیادہ اُن نئی زندگیوں کی بقاء کے لئے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے جو ابھی اس دنیا میں نہیں آئیں۔ یعنی سیلاب سے متاثرہ پانچ لاکھ حاملہ خواتین اگلے دنوں اور مہینوں میں اپنے بچوں کو جنم دینے والی ہیں- اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق امور کے فنڈ UNFPA کے مطابق گھروں کے تباہی کے بعد مختلف کیمپوں میں پناہ لینے والے سیلاب زدگان میں 70 فیصد خواتین شامل ہیں۔ مزید یہ کہ آئندہ دنوں میں ہر روز کم از کم 17 سو بچوں کی پیدائش متوقع ہے- تاہم سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں طبی سہولیات کی کمی اور اکثر علاقوں میں لیڈی ڈاکٹروں کی عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ زچہ اور بچہ کی مناسب دیکھ بھال کی سہولیات میسر نہ ہونے کے سبب روزانہ تقریبا ڈھائی سو خواتین کو زچگی کے دوران شدید پیچیدگیوں کا سامنا ہونے کے خطرات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں-
اس سلسلے میں پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا اور جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کی حاملہ خواتین کی صورتحال بہت زیادہ تشویشناک ہے- ان علاقوں میں بڑی حد قدیم روایتی نظام رائج ہے، جہاں عورتیں اپنی صحت کے مسائل کے بارے میں کسی سے بات چیت بھی نہیں کرتیں۔ بلوچستان کے دیہات میں ہسپتال پہلے ہی بہت کم پائے جاتے تھے۔ اب سیلاب کے بعد جن دور افتادہ مقامات پر طبی کیمپ بنائے گئے ہیں، وہاں حاملہ خواتین اور زچہ بچہ کو درکار بنیادی طبی سہولیات بھی موجود نہیں ہیں۔
بلوچستان میں جرمن امدادی تنظیم کی سرگرمیاں
اس بارے میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں طبی امدادی کام سر انجام دینے والے ایک غیر سرکاری ادارے LandsAid کی ڈاکٹر زرقا خواجہ، جو ابھی حال ہی میں جرمنی لوٹی ہیں، بتاتی ہیں’ پاکستان کے اُن علاقوں میں جہاں اب بھی قدیم روایات قائم ہے خواتین اپنی صحت سے متعلق مسائل کا کسی سے زکر نہیں کرتیں۔ وہ شرماتی ہیں۔ ان میں بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے علاقے شامل ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایک تو طبی سہولیات کی شدید کمی پائی جاتی ہے دوسرے یہ کہ وہاں لیڈی ڈاکٹرز نہیں پہنچی ہیں۔ ان علاقوں میں حاملہ خواتین اور ان کے بچوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں‘۔
ڈاکٹر زرقا نے بتایا کہ حاملہ خواتین کو ادویات سے زیادہ اس وقت غذائی توانائی کی ضرورت ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ مائیں خوراک کی کمی کی وجہ سے اپنے نومولود بچوں کو اپنا دودھ نہیں دے پا رہی ہیں۔ اُن کے اندر خون کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف نوزائیدہ بچوں کے لئے سب سے ضروری ماں کا دودھ ہے۔ خاص طور سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جہاں نہ تو پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ ہی صاف اور صحت بخش دودھ ۔ نو مولود بچوں کو اگر ماں کا دودھ ملتا رہے تو انہیں پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تاہم ماں اگر کمزوری اور خون کی کمی کے باعث بچے کو اپنا دودھ نہیں پلا پا رہی ہو تو پھر بچے کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے‘۔
ڈاکٹر زرقا نے کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح بڑھ رہی ہے۔ تربیت یافتہ طبی عملے، مڈ وائیوز اور دیگر ضروری طبی سہولیات مہیا نہ ہونے کے سبب ماؤں اور بچوں دونوں کی زندگیوں کو غیر معمولی خطرات کا سامنا ہے۔
عالمی ادارے کے اندازے
اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق فنڈ UNFPA کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ خواتین میں سے تین سو بیس دوران زچگی طبی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں-
UNFPA کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال 07 ۔2006 کے دوران حمل سے متعلق پیچیدگیوں کا شکار ہو کر ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد 30 ہزار تھی۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں تعینات اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف کے دفتر کے سربراہ Stefano Savi نے کہا ہے کہ حالیہ ناگہانی آفت یعنی سیلابوں کی تباہ کاریوں نے دیگر متاثرین کے علاوہ بچوں کے اذہان پر بھی گہرے اثرات چھوڑے ہیں- انہوں نے خوف اور صدمے کے شکار ان بچوں کے لئے نفسیاتی تربیت کے خصوصی مراکز قائم کرنے اور بچوں کو ایک پرسکون اور خوشگوار ماحول فراہم کرنے پر زور دیا ہے- طبی ماہرین کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں تیزی سے پھیلتی ہوئی عفونت سے بچاؤ کے لئے چند اہم ترین اقدامات فوری طور پر کئے جانا ضروری ہیں-
پینے کے صاف پانی کی فراہمی، جن علاقوں میں صاف پانی میسر نہیں ہے وہاں پانی کو اُبال کر پیا جائے، ٹھہرے ہوئے پانی میں انفیکشن یا عفونت بہت زیادہ پائی جاتی ہے، ایسے پانی سے دور رہا جائے، انسانی یا حیوانی لاشوں کے قریب جانے سے پرہیز کیا جائے، کیونکہ اُن سے گونا گوں بیماریاں پھیلنے کے خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں- اس کے علاوہ زخموں کو صاف پانی اور ڈیٹول کے صابن سے صاف کیا جانا چاہئے- زخموں کو صاف پٹی یا صاف دُھلے ہوئے کپڑے کے ٹکڑوں سے لپیٹ یا ڈھانپ کر رکھا جانا چاہئے کیونکہ کھلے زخموں سے جراثیم تیزی سے دوسرے جسموں تک منتقل ہو سکتے ہیں-
خشک میوے، چنے، پھلوں کے جوس اور کھجور کا استعمال فوری طور پر جسم کو مطلوبہ غذائیت بخشتا ہے- خوراک کی شدید کمی کے شکار افراد کی جانیں بچانے اور ان کے جسموں کو فوری طور پر غذائیت فراہم کرنے کے لئے ان اشیاء کی فراہمی کو ممکن بنایا جانا چاہئے-
رپورٹ :کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک