پاکستان میں شراب کی بڑھتی ہوئی مانگ
27 دسمبر 2016پاکستان میں ڈیروں اور گھروں میں واقع شراب بنانے والی ہزاروں بھٹیاں سالانہ بنیادوں پر لاکھوں لیٹر ’دیسی شراب‘ بناتی ہیں لیکن طلب ہے کہ کم ہوتی نظر نہیں آتی۔
دیسی ساختہ شراب کیکر کی چھال، گندم، خام چینی اور کسی بھی من پسند فروٹ کو مِکس کرتے ہوئے بنائی جاتی ہے اور کوالٹی کا بھی کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا۔
بعض افراد کے نزدیک غیر معیاری شراب کی دستیابی بھی ان لاکھوں پاکستانیوں کے لیے ایک نعمت ہے، جنہیں فیکڑی کی بنی شراب خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔
شراب کے عادی افراد ’ولائتی شراب‘ ملک میں اجارہ داری رکھنے والی مری بریوری سے یا پھر بلیک مارکیٹ سے ہی خرید سکتی ہے لیکن بہت سے افراد کے لیے ان کی قیمتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ پاکستان میں مری بریوری کی بنی ہوئی وسکی 0.78 لیٹر کی بوتل تقریباﹰ ایک ہزار روپے کی ملتی ہے جبکہ یہی بوتل پاکستان کے غیر مسلم شہری لیگل مارکیٹ سے آدھی قیمت پر خرید سکتے ہیں۔
دیسی شراب بنانے والے اسلم فاروق ( اصل نام ظاہر نہیں کیا گیا) کے مطابق قیمت میں فرق کی وجہ سے پاکستان میں ’دیسی شراب‘ کا کاروبار عروج پر ہے۔
اسلم کا گھر راولپنڈی کے ایک پولیس اسٹیشن سے تقریباﹰ سو میٹر کے فاصلے پر ہے اور وہ اپنے گھر پر نہ صرف اپنے لیے بلکہ آرڈر پر بھی دیسی شراب تیار کرتا ہے۔
شراب بنانے میں استعمال ہونے والے اوزار انتہائی سادہ ہیں۔ ایک بڑے سے ہنڈیا نما برتن میں اس نے تمام اجزاء مکس کیے ہوئے ہیں۔ اب ان کو خمیر زدہ بنانے کے لیے 21 دن تک رکھ دیا جائے گا اور اس کے بعد اسے کشید کر لیا جائے گا۔
اسلم کا کہنا ہے کہ وہ ایک لیٹر شراب کی بوتل 300 روپے میں فروخت کرتا ہے اور وہ یہ کام گزشتہ 25 برسوں سے کر رہا ہے۔ فخریہ انداز سے اس کا کہنا ہے، ’’میں زیادہ تر شادی بیاہ پر پی جانے والی شراب تیار کرتا ہوں جبکہ ایک رکن اسمبلی بھی میرا پکا گاہک ہے۔‘‘
اسلم کو پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے کا بھی خوف رہتا ہے۔ اس بارے میں وہ کہتا ہے، ’’میں کئی مرتبہ پکڑا بھی گیا ہوں لیکن پولیس رشوت لینے کے بعد مجھے چھوڑ دیتی ہے اور میں شراب کی ساری بوتلیں پولیس اہلکاروں کو دے دیتا ہوں۔‘‘
پاکستان میں شعبہ انسداد منشیات سے منسلک حکام کا کہنا ہے، ’’پاکستان میں ہر دوسری شادی پر دولہا کی طرف سے اپنے خاص مہمانوں کو شراب پیش کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ پارٹیوں میں ہزاروں کی تعداد میں مہمانوں کو ’دیسی‘ پیش کی جاتی ہے جبکہ لڑکیوں کا رقص دیکھنے کے شوقین افراد بھی زیادہ تر دیسی شراب کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘
پاکستان میں تیزی سے نشے میں آنے کا بہترین طریقہ دیسی شراب کو خیال کیا جاتا ہے۔ شراب کشید کرنے والا سلامت مسیح کہتا ہے، ’’میں چیلنج کرتا ہوں اگر چار لوگ میری بنائی ہوئی شراب کی ایک بوتل بھی پی لیں، تو نشہ ایسا ہو گا کہ چند قدم بھی چل نہ پائیں گے۔‘‘
پاکستان میں یہ مسئلہ آئے روز دیکھنے کو بھی ملتا ہے۔ یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کی زیادہ مقدار میں دیسی شراب پینے والا فرد دوبارہ ہوش میں بھی آئے گا یا نہیں۔ پاکستان میں سالانہ بنیادوں پر ہزاروں افراد ’کچی شراب‘ پینے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
سلامت مسیح کہتا ہے، ’’کچی شراب لالچ کا نتیجہ ہے۔ عام طور پر شراب بنانے کے لیے 21 دن درکار ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ شراب چھ دن میں تیار کرنے کے لیے اجزاء میں امونیم کلورائیڈ شامل کر دیتے ہیں اور اس وجہ سے شراب زہریلی ہو جاتی ہے۔‘‘
پاکستان کی 97 فیصد آبادی مسلمان ہے اور ستر کی دہائی میں اسلامی جماعتوں کے احتجاج پر ملک بھر میں شراب اور کلبوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ صرف ہندو اور مسیحی مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو شراب خریدنے کی اجازت ہے اور اس مقصد کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے ایک پرمٹ جاری کیا جاتا ہے۔
ایک رکن اسمبلی کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا ہے، ’’اس ملک میں دہرا معیار چلتا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہر تیسرا آدمی شراب پیتا ہے لیکن ہم اس حقیقت کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔ میں اور میرے زیادہ تر ساتھی شراب پیتے ہیں لیکن ہم اس کا اقرار نہیں کرتے کیونکہ ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ شراب نوشی کا رجحان پورے جنوبی ایشیا میں بڑھا ہے۔ ابھی چند روز قبل بھارت میں سینکڑوں افراد زہریلی شراب پینے کے باعث ہلاک ہو گئے تھے۔