1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں غربت و افلاس مزید اضافے کا خدشہ

17 ستمبر 2021

پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور ایکس چینج ریٹ تاریخ کی بلند سطح پر پہنچنے کے بعد عام آدمی سخت مشکلات سے دوچار ہے۔ پیٹرول اور ڈالر کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہیں، جس سے مزدود طبقہ زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/40RGW
Pakistan Fastenbrechen Eid al-Fitr
تصویر: DW/I. Jabeen

گوکہ ملک میں کم از کم اجرت ساڑھے سترہ ہزار روپے ماہانہ ہے، جو  ایک سو دو امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے، لیکن اس محدود آمدنی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں آئے روز اضافے نے نہ صرف پسماندہ بلکہ متوسط طبقوں کو بھی متاثر کیا ہے۔

پاکستان میں پیٹرول کی قیمت ایک سو تئیئس روپے اسی پیسے فی لیٹر اور امریکی ڈالر ایک سو ستر روپے پر پہنچ چکا ہے۔ پیٹرول اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کو عام طور پر مہنگائی میں اضافے سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بھی ملک میں پیٹرولم مصنوعات یا ڈالر کی قیمت بڑھی، دودھ، دہی، گھی، تیل، دال سمیت بیشتر اشیا کی قیمتوں میںب بھی سامنے آیا۔

کراچی کی شہاب الدین مارکیٹ میں سبزی فروش محمد نعیم نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ''جب پیٹرول مہنگا ہوتا ہے تو ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں، ہم سبزی منڈی سے ایک ہزار روپے میں مال لارہے تھے اب اس پر پانچ سو روپے بڑھ جائیں گے، یہ اضافی کرایہ ہم سبزی کی قیمت بڑھا کر عوام سے ہی وصول کریں گے۔‘‘

پیٹرول مہنگا ہونے سے جہاں عوام سیخ پا ہیں وہیں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈال رہی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ فوری واپس لیا جائے۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نون کی رہنما عظمیٰ بخاری نے پیٹرول اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کو مہنگائی کے نئے طوفان کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات اور امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد بعض اشیا کے دام بڑھ گئے ہیں۔مسز خان ایک ملازمت پیشہ خاتون ہیں، بازار میں خریدری کے دوران ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، "یہاں کوئی نظام نہیں ہے، ہر پندرہ روز بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھادی جاتی ہیں، دکاندار پیچھے سے مال مہنگا ملنے کا کہہ کر دام بڑھا دیتے ہیں، میرے پانچ بچے ہیں، میں خود بھی نوکری کرتی ہوں، صرف دال مونگ ہی ڈھائی سو روپے کلو ہے، اگر ہم آدھا کلو دال پکائیں تو باقی گھی، تیل، نمک، مرچ بھی چاہیے، روٹی کے لیے آٹا بھی پچہتر روپے کلو ہے، غریب آدمی کے لیے تو دو وقت کی روٹی کھانا مشکل ہوگیا ہے۔"

مثالی اسسٹنٹ کمشنر، جو بھیس بدل کر ذمہ داریاں نبھاتا ہے

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹ پیغام میں حکومتی اقدام کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں تیل کی قیمتیں اب بھی خطے میں سب سے کم ہیں، انہوں نے لکھا ہے کہ جب آپ نے تیل باہر سے خریدنا ہے تو قیمتیں بڑھیں گی، اصل کامیابی ہے کہ پچھتر فیصد آبادی کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ بہرحال حکومتی اقدام کو عوام اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ ایک طرف عوام اس فیصلے کو مہنگائی کی جڑ قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب سیاستدان اسے عوام دشمن اقدام کہہ رہے ہیں۔

اقتصادی امور کے ماہر سمیع اللہ طارق نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں کہا، "رواں مالی سال حکومت نے پیٹرولیم لیوی کا ہدف چھ سو ارب روپے رکھا ہے جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، ساتھ ہی یہاں ڈالر کی قیمت بھی بڑھ رہی ہے، اس لیے حکومت کو بھی مہنگا تیل خریدنا پڑ رہا ہے، جہاں تک ڈالر کی قیمت میں اضافے کی بات ہے تو ہمیں ڈالرز کی ضرورت ہے، اگرچہ ہماری ترسیلات زر اور برامدات چار ارب ڈالر ماہانہ سے زائد ہیں، لیکن معاشی بحالی کے نتیجے میں درآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے، ساتھ ہی افغانستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر بھی ڈالر کی طلب اور قیمت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔"

کراچی میونسپل کارپوریشن کے ایڈمنسٹریٹر اور سندھ حکومت کے ترجمان و مشیر قانون سندھ بیرسٹر مرتضی وہاب نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، "سندھ کے عوام پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافے کو مسترد کرتے ہیں، ریکارڈ مہنگائی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سمجھ سے بالا تر ہے، پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا سیلاب آئے گا۔" انہوں نے مطالبہ کیا کہ نااہل سرکار قیمتوں میں اضافے کو فوری واپس لے۔

ایک اعلیٰ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال خاصی پریشان کن ہے۔ ایک طرف مہنگائی بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب بیروزگاری کی وجہ سے اسٹریٹ کرائمز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، موجودہ صورتحال میں جرائم کا رجحان مزید بڑھنے کا خدشہ ہے، لوگوں کے پاس ملازمتیں نہیں، قوت خرید نہیں، گھر بار کیسے چلائیں، بچوں کو کیسے پالیں، لہذآ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کچھ تو کرنا ہوگا۔

ادھر طبی ماہرین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پہلے ہی کورونا کی وبا نے عام آدمی کی کمر توڑ رکھی ہے، علاج معالجہ مہنگا ہے، ادویات کی قیمتیں بلند ہیں، جب گھر میں کوئی بیمار اور بھوکا ہو تو پھر اس کی سوجھ بوجھ ختم ہو جاتی ہے، لہذا حکومت کو دیکھنا چاہیے کہ عام انتخابات کے وقت عوام سے جو وعدے اور دعوے کیے تھے اب انھیں پورا کیا جائے، کیونکہ عوام کو تو صرف دو وقت کی دال روٹی سے مطلب ہے، بھوکے پیٹ سیاسی نعروں میں انھیں کوئی دلچپسی نہیں۔

آخر ٹماٹر اتنے مہنگے کیوں؟