پاکستان میں مذہبی جماعتوں کا ایک بار پھر گٹھ جوڑ
11 مارچ 2011جنوری میں توہین رسالت کے الزام میں اپنے ہی ایک محافظ کے ہاتھوں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد تحریک ناموس رسالت کو ایک نئی جان ملی۔ یہ وہی تحریک ہے جس نے حکومت کو توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کرنے کے معاملے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ اس تحریک میں دیوبندی، بریلوی، شیعہ اور اہل ِحدیث سمیت مختلف مکاتب فکر کی 18 جماعتیں شامل ہیں۔
سن 2008ء کے عام انتخابات سے قبل مذہبی جماعتوں کے سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل کے ٹوٹنے کی وجہ سے مذہبی جماعتوں کو انتخابات میں بہت معمولی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ پاکستانی معاشرے میں بڑھتے ہوئے امریکہ مخالف جذبات اور توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی ایسے امور مذہبی جماعتوں کے دوبارہ اتحاد کی وجہ بن رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی کارکن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی چیرہ دستیاں اور موجودہ حکومت کی کمزوری بھی مذہبی جماعتوں کو سیاسی عزائم کی تکمیل میں مدد دے رہی ہے۔
عاصمہ کہتی ہیں: ''یہ بات درست ہے کہ بعض عناصر کا دوبارہ گٹھ جوڑ ہو رہا ہے جو کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی جواز نہیں تھا۔ گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد توہین رسالت کے قانون کو وہ آگے لے کر چلے ہیں اور اب ریمنڈ ڈیوس کے معاملے کو۔ اس ملک میں امریکی مخالفت تو پہلے ہی موجود ہے جس کو مزید بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ ‘‘
پاکستان میں 2002ء کے انتخابات میں 6 جماعتی مذہبی جماعتوں کے انتخابی اتحاد ایم ایم اے نے قابل ذکر اکثریت حاصل کی تھی۔ ان انتخابات میں اس اتحاد نے امریکہ کے افغانستان پر حملوں کو انتخابی مہم کا سب سے اہم نکتہ بنایا تھا۔
سینیر سیاستدان اور سابق صدر پرویز مشرّف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے رہنما احمد رضا قصوری کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کی بناوٹ میں خفیہ ایجسنیوں کا بھی ہاتھ تھا جو امریکہ اور مغربی قوتوں کو ڈرا کر مزید امداد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ احمد رضا قصوری کے مطابق ٹھوس سیاسی اور اقتصادی منشور نہ ہونے کے سبب مذہبی جماعتیں کبھی بھی انتخابی سیاست میں فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کرسکتیں۔
قصوری کی رائے ہے: ''آپ پاکستان کے سیاسی طرز عمل کا ریکارڈ دیکھیں جو گزشتہ تریسٹھ سالوں پر محیط ہے، تو آپ کو سوائے ایم ایم اے کے، جو کہ اس وقت خاصی سیٹیں لے گئی۔ لیکن اگر آپ طائرانہ نظر سے دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ مذہبی جماعتوں کو چھ، سات سے زیادہ کبھی بھی سیٹیں نہیں ملیں۔‘‘
عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ مذہبی سیاستدان موجودہ حالات کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کے باشعور عوام ان کے جھانسے میں کبھی نہیں آئیں گے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر ناگزیر وجوہات کے سبب ملک میں وسط مدتی انتخابات ہوئے یا موجودہ صورتحال چلتی رہی تو یقیناً یہ جماعتیں گزشتہ انتخابات کی نسبت بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: شامل شمس