1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان نے حافظ سعید کے گرد ’گھیرا مزید تنگ‘ کر دیا

13 فروری 2018

پاکستان نے انتہائی خاموشی کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے قوانین میں ترمیم کر دی ہے۔ اب اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دیے گئے افراد کے خلاف پاکستان میں بھی کارروائی ہو سکے گی۔

https://p.dw.com/p/2sc2I
Pakistanisches Gericht lässt bekannten Terroristen frei
تصویر: picture-alliance/dpa/K.M.Chaudary

پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے قوانین میں ترمیم کے حوالے سے دستخط گزشتہ جمعے کے روز صدر ممنون حسین نے کیے تھے جب کہ وزارت قانون نے انہیں شائع پیر کے روز کیا۔ ایک سینئر عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس ترمیم کا مطلب یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی لسٹ میں شامل کالعدم تنظیموں اور افراد پر اب پاکستان میں بھی پابندی ہو گی۔‘‘
دہشتگردی کے خلاف جنگ: جاپان کی طرف سے پاکستان کی تعریف

انہوں نے فی الحال یہ بتانے سے انکار کیا ہے کہ اس ترمیم کے بعد حافظ سیعد کے خلاف کیا کارروائی کی جا سکتی ہے؟ کئی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان پہلے ہی اقوام متحدہ کا رکن ہے اور اس ترمیم کا مقصد فی الحال غیر واضح ہے۔

Milli Muslim League Pakistan
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

پاکستان کی طرف سے یہ اقدام ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے، جب واشنگٹن حکومت نے حافظ سعید کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اسلام آباد حکومت پر دباؤ بڑھا رکھا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس نئی ترمیم سے حافظ سعید کے خلاف کارروائی کرنے کی راہ مزید ہموار ہو سکتی ہے۔ 

چین خطے میں انسداد دہشت گردی کے میکانزم کی تیاری میں مصروف  

ممبئی حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ حافظ سعید اپنے گھر میں نظر بند تھے لیکن حال ہی میں ان پر عائد یہ پابندی ہٹا لی گئی تھی۔ پاکستان کے مطابق حافظ سعید کے خلاف مناسب شواہد موجود نہیں ہیں اور وہ عسکریت پسندوں کی کسی بھی طرح کی حمایت سے بھی انکار کرتے ہیں۔

سکیورٹی تجزیہ کار عامر رانا کے مطابق پاکستان کی طرف سے اٹھایا گیا اقدام آئندہ ہفتے پیرس میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی تیاری ہو سکتی ہے۔ پیرس میں ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں دہشت گردانہ مقاصد کے لیے منی لانڈرنگ کی روک تھام  پر بات چیت کی جائے گی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کو خدشہ ہے کہ اسے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی تعاون فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔