پاکستان: پی ٹی آئی پر ممکنہ پابندی کے خلاف امریکی تنبیہ
16 جولائی 2024امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے کے حکومتی ارادے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سیاسی کریک ڈاؤن کے آغاز کی نشاندہی کرتے ہیں۔
پاکستانی حکومت کا پی ٹی آئی پر پابندی کا ارادہ، عطا تارڑ
واضح رہے کہ پیر کے روز پاکستان کی وفاقی حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک کیس دائر کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت عمران خان اور سابق صدر عارف علوی کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔
پاکستان: عمران خان اور بشریٰ بی بی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں
پاکستانی وزیر برائے اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا تھا کہ حکومت سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے اقدامات کرے گی۔
امریکہ نے کیا کہا؟
پیر کے روز ایک پریس بریفنگ کے دوران جب ''پی ٹی آئی پر ممکنہ پابندیوں '' کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ''اقدامات سے سیاسی کریک ڈاؤن کے آغاز کی نشاندہی'' ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حق دار، حکومت کی دو تہائی اکثریت کا خاتمہ
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ''ہم نے حکومت کی طرف سے وہ عوامی بیانات دیکھے ہیں۔ ہماری سمجھ یہ ہے کہ یہ ایک ایسی چیز کا آغاز ہوگا، جسے پیچیدہ سیاسی عمل کہتے ہیں۔ لیکن کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنا ہمارے لیے یقینی طور پر انتہائی تشویشناک بات ہے۔''
سابق وزیراعظم عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیشی
انہوں نے کہا کہ امریکہ اس طرح کی داخلی پیش رفت اور فیصلوں پر کڑی نظر رکھے گا۔
ملر نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتوں پر کسی بھی قسم کی پابندیاں تشویشناک بات ہیں، کیونکہ وہ ''انسانی حقوق، آزادی اظہار، آئینی اور جمہوری اصولوں سے متصادم ہوتی ہیں۔''
پاکستانی فوج کو ’موجودہ عدالتی نظام پر اعتبار نہیں‘
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ ہمیشہ جمہوری طریقوں، وسیع تر اصولوں اور قوانین کی پاسداری سمیت انصاف کو فروغ دینے والے اقدامات کی حمایت کرتا ہے۔
مختلف سیاسی جماعتوں کا رد عمل
حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے اقدام پر تقریبا ًتمام سیاسی حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے اور اس اقدام کو غیر جمہوری کہا جا رہا ہے۔
نواز شریف ’موروثی یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ سیاست کے داعی؟
پی ٹی آئی کے علاوہ پی پی پی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس فیصلے پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ پابندی کی صورت میں اس کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی احتجاجی مہم: کیا اب بھی احتجاج کی طاقت ہے؟
ایک پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اس ممکنہ اقدام پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد حکومت کو درپیش 'شرمندگی‘ کا نتیجہ قرار دیا، جس نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں واپس کر دیں ہیں اور اس طرح پی ٹی آئی پارلیمان کے ایوان زیریں میں سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔
اڈیالہ جیل پر ناکام حملے کی خبروں کے بعد انکوائری کا مطالبہ
قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت 240 ملین لوگوں کو جبر، ڈرانے اور ہراساں کر کے خوفزدہ کرنا چاہتی ہے، لیکن پی ٹی آئی ڈرنے والی نہیں۔''
شہباز شریف کی حکومت، یا پی ڈی ایم ٹو؟
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جو لوگ اپنی خواہشات کو قانون کا درجہ دے کر ''ملک کو تباہی اور انارکی کی دلدل میں دھکیلنے پر تلے ہیں" انہوں نے ایسے عناصر کے خلاف جنگ لڑی ہے اور وہ یہ "لڑائی جاری رکھیں گے۔''
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ مقبول ترین سیاسی جماعت کو اندھی طاقت سے کچلنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی اس سے کسی مثبت نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔
پیپلز پارٹی نے بھی حکومت کے اس ممکنہ اقدام سے لا تعلقی کا اظہار کیا۔ پی ٹی آئی پر ممکنہ پابندی سے خود کو دور رکھتے ہوئے پی پی پی نے کہا کہ اس کی قیادت کو فیصلے کے حوالے سے آن بورڈ نہیں لیا گیا۔
پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا، ''ہم نے بھی اسے دوسروں کی طرح سنا ہے۔ ہمیں سیاست صرف اس لیے کرنی چاہیے کہ ایسے فیصلوں سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ دیکھتے ہیں عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ میں اپنی پارٹی اور اس کی پالیسیوں کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔''
پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر میاں رضا ربانی نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کی جانب سے کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کی بات جمہوریت کے تمام اصولوں کے خلاف ہے اور حکومت پر زور دیا کہ وہ ایسا قدم اٹھانے سے باز رہے۔
پی پی پی کے ایک اور رہنما فرحت اللہ بابر نے بھی اس اقدام پر تنقید کی۔ انہوں نے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا، '' کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے یا سیاسی رہنما کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں بکواس ہیں اور غیر پائیدار ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ سیاسی بحران کے مانند ہو گا۔ خبردار رہو کہ اس خود ساختہ بحران سے پاکستانی جمہوریت، بلکہ خود ریاست کے اس سے نمٹنے کا امکان نہیں ہے۔''
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)