’پاکستان کو ڈرونز کی فراہمی پر امریکہ کا غور‘
23 اپریل 2011امریکی حکومت کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے پر خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان طیاروں میں کیمرے نصب ہوں گے، تاہم میزائل فائر کرنے کی صلاحیت نہیں ہو گی۔ ان کے برعکس امریکی فورسز کے زیراستعمال ایسے طیارے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد کو ڈرون طیاروں کی فراہمی کے منصوبے پر غور کیا جا رہا ہے۔ تاہم امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون کے ترجمان کیپٹن ڈیرن جیمز کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
جیمز نے کہا، ’ہم اپنے پاکستانی پارٹنرز کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں کہ انتہاپسندی کے خلاف مہم جاری رکھنے کے لیے ان کی ضروریات کیا ہیں۔ تاہم کسی طرح کے فیصلوں یا معاہدے سے پہلے مخصوص آلات پر بات چیت کرنا ہمارے لیے قبل ازوقت ہوگا۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اہم اتحادی ہے۔ عسکری اور سویلین مقاصد کے لیے اسلام آباد حکومت واشنگٹن سے بھاری امداد حاصل کرتی ہے۔ تاہم افغانستان کی سرحد سے ملحقہ اس کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں کی وجہ سے ملک میں امریکہ مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انتہاپسندوں کے خلاف ڈرون حملوں کے ذریعے کی جانے والی کارروائیوں کے لیے امریکہ کو دراصل پاکستان کی رضامندی حاصل ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد حکومت ان کارروائیوں کو اپنی خودمختاری کے خلاف قرار دیتی ہے۔
اُدھر امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کی تردید یا تصدیق نہیں کرتا۔ تاہم اے ایف پی کا کہنا ہے کہ اس خطے میں اس نوعیت کے طیارے امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے ہی کے استعمال میں ہیں۔
امریکہ پاکستان کے اس علاقے کو خطرناک ترین خطہ قرار دیتا ہے۔ واشنگٹن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تعینات نیٹو افواج پر حملوں اور دیگر دہشت گردانہ کارروائیوں کے منصوبے اسی علاقے میں بنائے جاتے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عابد حسین