پاکستان کے ساتھ تعلقات رکھنا مجبوری ہے، لیون پنیٹا
17 اگست 2011منگل کو واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی موجودگی میں انہوں نے فوجی افسران کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئےکہاکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات دشواری کا شکار ہیں کیونکہ اسلام آباد حکومت کے بعض عناصر کے حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے ساتھ روابط ہیں۔ ان کے بقول حقانی نیٹ ورک ہمسایہ ملک افغانستان میں امریکی فوجیوں کے خلاف حملوں میں ملوث ہے جبکہ لشکر طیبہ پر بھارت کے خلاف حملوں کی سازش کا الزام ہے۔
لیون پنیٹا نے کہا، ’’اس میں زیادہ پیچیدہ معاملہ یہ ہے کہ ان (پاکستان کے)حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تعلقات ہیں جو سرحد پار کر کے افغانستان میں ہماری فورسز پر حملے کرتے ہیں۔‘‘
لیون پنیٹا نے حال ہی میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر کا عہدہ چھوڑ کر وزیر دفاع کا منصب سنبھالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کے لشکر طیبہ کے ساتھ بھی روابط ہیں اور یہ وہ گروپ ہے جو بھارت جا کر وہاں حملوں میں ملوث رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی حکام بعض اوقات ملک میں جانے والے امریکی حکام کے ویزے بھی روک لیتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ بض ایسے ضروری مفادات ہیں جن کے باعث امریکہ کو یہ شراکت قائم رکھنی پڑ رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ’’ہمارے پاس پاکستان کے ساتھ تعلقات رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ ہم وہاں جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ہم وہاں القاعدہ کے خلاف برسر پیکار ہیں اور پاکستان اس سلسلے میں کچھ تعاون کر رہا ہے۔ لیون پنیٹا نے کہا کہ پاکستان خطے کی ایک اہم طاقت ہے اور جوہری ہتھیاروں سے مسلح ہے، جس کی وجہ سے ہمیں اس میں دلچسپی لینا پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہیں گے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا اسلام آباد نے مئی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی کارروائی میں تباہ ہونے والے ہیلی کاپٹر تک چینی انجنئیروں کو رسائی دی ہے تو انہوں نے اس بات کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کر دیا۔
پنیٹا نے کہا کہ وہ اس پر تبصرہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس کا تعلق خفیہ معلومات سے ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: شادی خان سیف