پاکستان کے متاثرینِ سیلاب میں وبائی امراض پھوٹنے کا خطرہ
30 نومبر 2011پاکستان ہیومینیٹیرین فورم (پی ایچ ایف) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں حالیہ برس سیلاب سے پچاس لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں سے نصف تعداد بچوں کی ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ قریب سات لاکھ افراد سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں بے گھر ہو چکے ہیں، ساٹھ لاکھ ایکڑ زرعی اراضی تباہ ہوچکی ہے جبکہ تئیس لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں بھی سیلابی ریلے کی نذر ہو چکی ہیں۔
تباہ کن سیلاب سے متاثرہ لاکھوں افراد کو صاف پانی، صحت عامہ کی سہولیات، خوراک، پناہ گاہوں اور نقد امداد کی فوری ضرورت ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی جانب سے رواں برس 18 ستمبر کو عالمی برادری سے 357 ملین ڈالرز کی ہنگامی امداد کی اپیل بھی کی گئی تھی، تاہم ابھی تک اس امداد کا صرف 37 فیصد حصہ ہی موصول ہو پایا ہے۔
رپورٹ میں عالمی اداروں کی جانب سے امدادی کاموں میں تاخیر کا سبب حکومت کی ناقص پالیسیوں کو قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غیر ملکی امدادی کارکنوں کو ویزے جاری کرنے کا عمل سست روی کا شکار رہا ہے جس کے باعث امدادی سرگرمیاں تاخیر کا شکار ہیں۔ اس افسوسناک صورتحال کے نتیجے میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی متعدد امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔
عالمی امدادی اداروں کے مطابق ان علاقوں میں ہزاروں کاشت کار موسم سرما کی فصلیں کاشت کرنے کے لیے اب بھی حکومتی تعاون کے منتظر ہیں۔ اس وجہ سے سیلاب سے متاثرہ لاکھوں افراد کو ممکنہ طور پر خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس صورتحال کے حوالے سے ایک حکومتی اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بیرونی امدادی کارکنوں کو ویزوں کے اجراء کے چند کیسز میں تاخیر ہو سکتی ہے لیکن امدادی کاموں میں رکاوٹ ڈالنا حکومتی پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔
پاکستان کو گزشتہ برس بھی ایک تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستان ہیومینیٹیرین فورم کی رپورٹ میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ سیلاب، خشک سالی یا کسی بھی زلزلے کی صورت میں ہونے والے نقصانات میں کمی لانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: حماد کیانی