1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی آئین: ممکنہ بیسویں ترمیم کی مخالفت

31 مئی 2011

پاکستان میں الیکشن کمیشن کی آئین کے مطابق تشکیل مکمل نہ ہونے کے سبب ضمنی انتخابات میں کامیاب ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 26 ارکان کا پارلیمانی مستقبل خطرے میں ہے۔

https://p.dw.com/p/11ROK
تصویر: AP Photo

پارلیمان کی جانب سے گزشتہ برس اپریل میں منظور کی گئی 18ویں آئینی ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کی فوری تشکیل نو کی جانا تھی۔ حکومت نےاس مقصد کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی، جس میں تمام بڑی جماعتوں کو نمائندگی حاصل تھی۔ تاہم باہمی عدم اتفاق کے سبب الیکشن کمیشن کی تشکیل نو مکمل نہ ہو سکی۔ اسی دوران پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی نامکمل تشکیل کے خلاف ایک درخواست بھی دائر کر دی۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو الیکشن کمیشن کی تشکیل اور 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد ضمنی انتخابات میں منتخب ہونے والے ارکان کی حیثیت سے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے تین ہفتے کی مہلت دے رکھی ہے جس میں سے نصف سے زائد مدت اب تک گزر چکی ہے۔

اس خطرے کو بھانپتے ہوئے سابق وزیر قانون بابر اعوان نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اگر ضمنی انتخابات کو آئینی تحفظ نہ دیا گیا تو 26 ارکان صوبائی اور قومی اسمبلی کا پارلیمانی مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا۔ ’’ہم چاہتے ہیں کہ جو انتخابات ہو چکے ہیں، ان کو آئینی تحفظ دیا جائے اور وہ متفقہ 20 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہم نے کچھ جماعتوں سے بات کر لی ہے اور وہ اس پر آمادہ ہیں۔ اس کام میں بھی رکاوٹ مسلم لیگ (ن) ہی ہے۔‘‘

Pakistan Imran Khan
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خانتصویر: Abdul Sabooh

دوسری جانب پاکستانی آئین کی تیاری میں اہم کردار ادا کرنے والے آئینی ماہرین میں سے ایک اور سابق وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کو آئینی ترمیم یا عام قانون کے ذریعے تبدیل کر سکتی ہے۔ 18 ویں ترمیم پر پہلے ہی 19 ویں ترمیم آ چکی ہے۔ 20 ویں ترمیم لانا بھی حکومت کا حق ہے۔ اس کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت ہونا ضروری ہے۔ لیکن اس کے باوجود آخری اختیار سپریم کورٹ ہی کے پاس ہے، جس طرح وہ اس وقت 18 ویں آئینی ترمیم کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اس کے کچھ حصے ختم ہونے ہیں یا نہیں؟ انہوں نے ایک عبوری حکم پاس کر کے پارلیمنٹ کو نظر ثانی کا ایک موقع دیا۔

عبدالحفیظ پیرزادہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’20 ویں ترمیم میں اگر کچھ آتا ہے اور اس کی بنیاد موجود ہے کہ سپریم کورٹ مداخلت کرے تو یقیناً 20 ویں ترمیم بھی عدالت میں زیر بحث آئے گی۔‘‘ حفیظ پیرزادہ کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں حکومت کے لیے ایک اور آئینی ترمیم منظور کرانا آسان نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق، ’’مسلم لیگ (ق) کا بڑا حصہ حکومت کے ساتھ ہے۔ ایم کیو ایم کا کہہ نہیں سکتے کہ وہ کہاں ووٹ کریں گے۔ نواز لیگ یقیناﹰ ترمیم کے خلاف جائے گی۔ جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی کا بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کیا کریں گے۔ اس وقت 20 ویں ترمیم کا لایا جانا یا اس کو منظور کروا لینا اتنا آسان نہیں ہوگا۔‘‘

دریں اثناء اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے منگل کے روز اس پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل نو کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا، جس کو الیکشن کمیشن کی تشکیل مکمل کرنے کے سلسلے میں اپنی سفارشات پیش کرنا ہیں۔ نئے نوٹیفیکیشن کے تحت اس کمیٹی سے فاٹا کے ارکان کی نمائندگی ختم کر دی گئی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ میں مزید وقت حاصل کرنے کے لیے اس طرح کے اقدامات کر رہی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے چار متفقہ ارکان کا چناؤ مختلف خیالات رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے لیے آسان نہیں ہوگا۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں