پاکستانی مذہبی جماعتیں اور انتخابی سیاست میں ناکامی
3 فروری 2024پاکستان کے الیکشن کمیشن میں 166 کے قریب سیاسی جماعتیں باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ ہیں، جس میں تقریبا 24 کے قریب مذہبی جماعتیں ہیں۔ تاہم پاکستان کی انتخابی تاریخ میںمذہبی جماعتوں کو کبھی بھی عوام نے اتنے ووٹ نہیں دیے کہ وہ مسند اقتدار پر براجمان ہو سکیں۔
ملک میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام، مجلس وحدت المسلمین اور راہ حق پارٹی سمیت کئی مذہبی جماعتیں پریشر گروپ کے طور پر ملک میں انتہائی موثر ہیں لیکن انتخابی سیاست میں وہ کبھی بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکیں۔
پاکستانی سیاسی قائدین کو رقص سے نفرت ہے یا رقاصاؤں سے
کچھ لبرل تجزیہ نگاروں کے خیال میں حالیہ برسوں میں مذہبی جماعتوں کاووٹ بینک بڑا ہے اور تحریک لبیک پاکستان 2018 کے الیکشن پر دو اعشاریہ انیس ملین ووٹ حاصل کیے لیکن پارٹی صرف سندھ اسمبلی کی دو نشستیں جیت پائی۔
مذہبی جماعتیں اکثریت کیوں نہیں حاصل کر سکیں
معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ کیونکہ کئی مذہبی جماعتوں نے تخلیق پاکستان کی مخالفت کی تھی اس لیے پاکستان بننے کے بعد عوام میں ان کی مقبولیت کچھ زیادہ نہیں تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تو مذہبی جماعتوں نے قرارداد مقاصد اور احمدیوں کے خلاف تحریک چلانے جیسے مسائل کو اٹھا کر عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی۔‘‘
زیادہ ووٹ نہ ملنے کے تاریخی عوامل
ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق عوامی مقبولیت نہ ہونے کے کچھ اور تاریخی عوامل بھی ہیں۔ '' برطانوی ہند میں انتخابات متعارف کرایے گئے تو اس کے لیے تعلیم اور ٹیکس کی شرح رکھی گئی اور زیادہ تر مولوی کیونکہ نچلے طبقہ سے تھے نہ ان کے پاس پیسہ تھا نہ ان کے پاس تعلیم تھی۔ اس لیے وہ انتخابی سیاست سے تقریبا باہر رہے۔‘‘
جمہوری سیاست میں تاخیری شرکت
ڈاکٹر مبارک علی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد مذہبی جماعتیں کافی عرصے تک جمہوریت کو ایک کافرانہ نظام سمجھتی رہیں۔ ''اسی لیے وہ اس میں حصہ لینا پسند نہیں کرتی تھی۔ جماعت اسلامی نے بھی ایک وقت میں جمہوریت کو کافرانہ نظام قرار دیا اور یہ انتخابی سیاست میں دیر سے داخل ہوئے جبکہ جاگیردار سیاستدان برطانوی وقت سے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے اس لیے وہ انتخابی سیاست کے ہنر سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔‘‘
ووٹ نہ ملنے کے سماجی عوامل
ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کی ناکامی کی ایک وجہ سماجی بھی ہے۔ ' زیادہ تر مولویوں کا تعلق بے زمین کسانوں سے ہے، جنہیں دیہاتوں میں کمی کمین سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ان کا اتنا سماجی رتبہ نہیں تھا کہ وہ سیاست میں حصہ لے کے جاگیردار کے خلاف کوئی محاذ کھڑا کریں، یہ صرف افغان جہاد سعودی عرب اور امریکہ کی طرف سے مذہبی تنظیموں کی حمایت تھی جس کی وجہ سے مذہبی تنظیموں کے پاس پیسہ آیا اور وہ مشرف کے دور میں انتخابی سیاست میں طاقتور ہوئے۔‘‘
منافقانہ سیاست
جمعت علمائے پاکستان کی سپریم کونسل کے چیئرمین قاری زوار بہادر کا کہنا ہے کہ مذہبی تنظیمیں انتخابی سیاست میں اس لیے کامیاب نہیں ہو سکی کیونکہ انہوں نے ہمیشہ منافقت سے کام لیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مذہبی تنظیموں نے نعرہ اسلامی نظام، نظام مصطفی اور اسلامی انقلاب کا لگایا لیکن انہوں نے اتحاد سیکولر جماعتوں سے کیا۔ مثال کے طور پر مولانا فضل الرحمن تمام حکومتوں کا تقریبا حصہ رہے ہیں۔‘‘
انتخابی سیاست اور مذہبی جماعتیں
قاری زوار بہادر کے مطابق پاکستان کی انتخابی سیاست میں دو بار مذہبی تنظیموں یا جماعتوں نے بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی۔ '' انیسو ستر کے انتخابات میں جمعیت علمائے پاکستان جس کی قیادت مولانا شاہ احمد نورانی کر رہے تھے نے سات سیٹیں قومی اسمبلی کی جیتیں جبکہ سندھ سے بھی ہم نے تقریباگیارہ بارہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں لی تھیں اور مولانا شاہ فرید الحق سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے تھے۔‘‘
قاری زوار بہادر کے مطابق اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام، جس کے قیادت مفتی محمود کر رہے تھے، اور جماعت اسلامی نے بھی قومی اسمبلی کی کچھ نشستیں لی تھیں۔‘‘
مذہبی جماعتوں کی انتخابی کارکردگی
دو ہزار دو کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے ترسٹھ نشستیں لی تھیں۔ اس اتحاد میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام اوردیگر مذہبی جماعتیں شامل تھیں۔ یہ نشستیں پاکستانی کی پوری انتخابی تاریخ میں مذہبی جماعتوں کو ملنے والی عام نشستوں میں سب سے زیادہ تھیں۔
تاہم دیگر انتخابات میں مذہبی جماعتوں کی عام نشستوں پر صورتحال کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں تھی۔ مثال کے طور پر 1988 میں جماعت اسلامی، اسلامی جمہوری محاذ کا حصہ تھی۔ تاہم جے یو آئی ایف نے سات جبکہ جے یو آئی درخواستی نے ایک نشست حاصل کی تھی۔ 1990 میں جے یو آئی ایف نے چھ اور جمعیت علماء پاکستان نورانی نے تین عام نشستیں حاصل کیں۔ 1993 میں جماعت اسلامی نے ایک مذہبی اتحاد تخلیق کیا جسے پاکستان اسلامک فرنٹ کا نام دیا گیا اور اس نے تین نشستیں حاصل کی۔ 1997 میں جے یو آئی ایف نے دو نشستیں حاصل کی۔ 2008 کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے چھ۔ 2013 کے انتخابات میں جے یو آئی ایف نے 10 اور جماعت اسلامی نے تین نشستیں حاصل کی۔ 2018 میں جمعیت علماء اسلام نے 13 نشستیں حاصل کی۔
مذہبی جماعتوں کی توقعات
فروری کو ہونے والے انتخابات میں مذہبی جماعتیں امید کر رہی ہیں کہ ان کو اچھی خاصی نشستیں ملیں گی۔ جماعت اسلامی کے سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سمعیہ راحیل قاضی کا کہنا ہے کہ جماعت نے پورے ملک سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اچھا خاصے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گوادر، کراچی اور خیبر پختون خواہ کے کچھ حلقوں میں ہماری پوزیشن مضبوط ہوگی اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے علاقوں سے بھی ہم بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔‘‘
تحریک لبیک پاکستان کے ایک رہنما ابن اسماعیل شامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے تمام صوبوں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے تقریبا 740 امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ پنجاب اور سندھ سے ہمیں بڑے پیمانے پر نشستیں ملیں گی جبکہ کے پی سے بھی ہم امید کر رہے ہیں۔ تاہم بلوچستان میں ہمیں ہماری نشستوں کی تعداد ممکنہ طور پر محدود ہو سکتی ہے۔‘‘
ماضی میں شیعہ کالعدم تنظیموں کے زوال کے بعد بننے والی مجلس وحدت المسلمین بھی انتخابی سیاست میں سرگرم ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے ایک رہنما ناصر شیرازی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہماری پارٹی ہر صوبے سے ایک قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پی ٹی آئی کی حمایت کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ انفرادی طور پہ ہمیں ہماری پوزیشن پارہ چنار سے قومی اسمبلی کی نشست پر مضبوط ہے۔‘‘
ماضی میں کالعدم سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے احمد لدھیانوی، مولانا معاویہ اعظم اور مولانا مسرور نواز جھنگوی کے درمیان اختلافات کی خبریں ہیں۔ تاہم ان کی جماعت کے کئی رہنما بھی قومی اور صوبائی اسمبیلوں کی نشستوں پر مختلف ناموں سے یا تو انتخابات لڑ رہے ہیں یا کسی اور امیدوار کی حمایت کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں اس جماعت کے رہنماوں نے شہباز شریف کی کھل کر حمایت کی تھی اور اب یہ ایم کیو ایم سمیت مختلف جماعتوں کی حمایت کررہے ہیں۔