پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے مشرق وسطی کے اہم دورے
16 دسمبر 2019وزیراعظم عمران خان آج پیر کے روز بحرین کے دورے پر پہنچے ہیں، جہاں ان کا استقبال شاہ حماد بن عیسی بن سلمان الخلیفہ نے کیا۔ وہ بحرین کے قومی دن پر بطور مہمان خصوصی شرکت کے لیے گیے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کو بحرین کا اعلٰی ترین سول ایوارڈ بھی دیا جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان اس دورے کے دوران اپنے وفد کے ہمراہ بحرین کے شاہ حماد بن عیسی سے خصوصی دو طرفہ امور پر بات چیت کریں گے۔ اس موقع پر دونوں مما لک کے اعلی سطحی وفود کے درمیان سیاسی، تجارتی، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات بھی زیر بحث آئیں گے۔ گو وزیراعظم پاکستان کی جانب سے بحرین کا یہ پہلا دورہ ہے لیکن اس سے قبل وہ سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ ہفتے کے روز ان کی ملاقات سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ہوئی تھی۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے اسے معمول کا ایک دورہ قرار دیا۔
مشرق وسطی اور پاکستان کی تزویراتی اور جغرافیائی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیراعظم کے حالیہ دورے قابل ذکر ہیں۔ وزیراعظم نے رواں سال میں مشرق وسطی کے کئی ممالک کے دورے کیے، جن میں ایران، سعودی عرب، ترکی اور ملائیشیا شامل ہیں۔ سعودی عرب کا ان کا یہ چوتھا دورہ تھا۔ اکتوبر کے مہینے میں دورہ ایران کے دو دن بعد وہ سعودی عرب گئے تھے ۔ ایران کے دورے میں ان کی ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی اور ایرانی صدر حسن روحانی سے بات چیت ہوئی تھی۔
اُس وقت سعودی عرب اور ایران کے بیچ سعودی آئل ریفائنری پر حملے کے بعد تعلقات کشیدہ تھے اور امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کو اس حملے پر ذمہ دار ٹھہرا کر معاشی پابندیوں کی بات کی تھی۔ اس دوران یہ باز گشت بھی سنائی دی کہ پاکستان، ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کو معمول کی سطح پر لانے کی کوششں کر رہا ہے اور عمران خان مسلم ممالک کے سربراہان کو اس خطے کی معاشی ترقی اور سلامتی کے ایجنڈے پر اکٹھا کرنے کے خواہاں بھی ہیں۔
خلیج کے علاقے میں فوجی تصادم سے بچا جانا چاہیے، عمران خان
کیا پاکستان ایران اور سعودی عرب کشیدگی کو ختم کرا سکتا ہے ؟
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے مشرق وسطی کے مسلسل دوروں کی اہمیت پر سینئر تجزیہ نگار اور مصنف امتیاز گل نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات کی ان کا کہنا تھا،'' کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان ایک اہم ملک ہے۔ جب بھی دوسرے ممالک کے درمیان مسئلہ ہوتا ہے پاکستان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک پل کا کردار ادا کرے۔ معاملات اگر سنوارے نہ بھی جا سکیں لیکن کم از کم پاکستان کی کوششوں سے مسلم ممالک کے تعلقات میں ٹھہراؤ ضرور آجاتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بہتری کے لیے وزیراعظم نے پہلے بھی کوششیں کی تھیں۔ اس دوران پاکستان ایک بیلینسنگ فیکٹر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ حالیہ دورے میں بھی ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم نے سعودی ولی عہد کو ملائیشیا کی کانفرنس میں شرکت پر آمادہ کر لیا ہو۔‘‘
اس سوال پر کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کے دورے پر سعودی عرب میں دو ہزار پاکستانی قیدیوں کی رہائی کی بات کی تھی لیکن ابھی تک دو ہزار قیدیوں میں سے ایک سو سے بھی کم قیدیوں کی رہائی ممکن ہو سکی اور ماضی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ محمد بن سلمان ایران کے ساتھ تصفیے اور پاکستان، ترکی اور ملائیشیا کے مشترکہ چینل کھولنے پر ناراض ہیں۔
اس کے جواب میں امتیاز گل کا کہنا تھا،'' تمام نہیں لیکن کچھ قیدی تو رہا ہوئے ہیں۔ صرف عمران خان کے کہنے پر سعودی عرب کے نظام کو تلپٹ نہیں کیا جا سکتا۔ آج کا سعودی عرب ایک مختلف سعودی عرب ہے۔ موجودہ ولی عہد نے اس سعودی عرب کو ایک نئی جہت پر ڈالا ہے۔ اب خواتین کو وہ حقوق دیے جا ریے ہیں جو پہلے ان کے پاس نہیں تھے۔ ثقافتی اور معاشرتی سطح پر لوگوں کو آزادی ملی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ نئی سوچ رکھنے والے رہنما ایسی کسی بات پر ناراض ہوں گے۔ سابقہ سعودی حکمرانوں کے تعلقات امریکا سے بہت گہرے تھے۔ موجودہ ولی عہد کے امریکا سے تعلقات اقتصادی بنیادوں پر مبنی ہیں۔ پاکستان کے لیے سعودی عرب، ترکی، ملائیشیا، ایران، بحرین اور دیگر مسلمان ملک غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ مسلم ممالک پاکستان کی مالی مدد میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اس بار بھی پاکستان کو ان ہی عرب مسلم ممالک نے مالی امداد فراہم کی ہے۔ پاکستان خطے کی ایک اہم ضرورت ہے اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا۔‘‘