1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی کرکٹ ٹیم اس حال تک کیسے پہنچی؟

عاصمہ کنڈی
27 ستمبر 2018

کسی قدیم جنگجو کا قول ہے کہ ’دشمن چھوٹا ہو یا بڑا جیت ہمت سے ہی ملتی ہے‘۔ اگربھارت کے ہاتھوں دبئی کی درگت کے بعد اس بارے میں کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ بنگلہ دیش جیسی دوسرے درجے کی ٹیم نے ابوظبی میں پوری کردی۔

https://p.dw.com/p/35ZLc
Cricket Asia Cup 2018 l Bangladesh vs Pakistan
تصویر: Getty Images/AFP/I. S. Kodikara

پاکستان ایشیا کپ پہلی بار نہیں ہارا ہے لیکن گزشتہ دس دن میں حریفوں کے سامنے اس ٹیم کی جو بے بسی اور بے بصری دکھائی دی، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

بارہ رنز پر بنگلہ دیش کی تین وکٹیں گرانے کے بعد شعیب ملک کو گیند ملنے سے ہی لگ رہا تھا کہ پاکستانی ٹیم کوفائنل کھیلنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ویسے بھی بھارت سے ایک ٹورنامنٹ میں مسلسل تین میچ ہارنے کا خطرہ کون مول لینا چاہے گا؟

ان ناکامیوں کا ملبہ صرف کپتان پر گرانا جائز نہ ہوگا۔ اب بھی سرفراز احمد ہی ایک ایسے شخص ہیں جواس ٹیم کو متحد رکھ سکتے ہیں۔ ہاں خود 'آؤٹ آف فارم‘ ہونے کی وجہ سے بھی وہ دباؤ میں آ کر فیلڈ پر اچھے فیصلے نہ کرسکے۔ اس طرح کی صورتحال سے دوچار کپتان کو ہمیشہ 'ٹیم لیڈر شپ گروپ‘ سے مدد درکار ہوتی ہے لیکن اظہر اور حفیظ کو مضحکہ خیز انداز میں نظر انداز کر دیا گیا اور شعیب ملک کا بھی فیصلہ سازی میں کوئی کردار دکھائی نہ دیا۔

سرفراز احمد کی سب سے بڑی بدقسمتی تھی کہ ان کے دونوں 'میچ ونرز‘ محمد عامر اور فخر زمان امیدوں پر پورا نہ اتر سکے۔ انہیں خلیج کی 'سلو پچز‘ راس نہ آئیں۔ انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ وغیرہ، جہاں بلے پر گیند تیز آتی ہے فخر زمان اب بھی کارگرہوں گے۔

دراصل اس ناکامی کا بیج لاہورمیں اسی دن بو دیا گیا تھا جب سلیکشن کمیٹی اور ہیڈ کوچ نے سکواڈ میں چھ فاسٹ باؤلرز کو جگہ دی۔ دیگر تمام ٹیمیں مستند اسپنرز لے کر گلف گئیں، مگر مکی آرتھر کی سوئی میڈیم پیسرز پر ہی اٹکی رہی۔

اماراتی سر زمین پر بارہ برس بعد پاک بھارت کرکٹ میچ

داناؤں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ دوسروں کی غلطیوں سے سیکھتے ہیں لیکن پاکستانی ٹیم کے نگہبان شاید اپنی غلطیوں سے بھی سیکھنے کے رودار نہیں۔ ابھی ایک سال نہیں ہوا جب سری لنکا کے خلاف ابوظبی اور دبئی کے ٹیسٹ میچوں میں تین تین فاسٹ باولرز کھلانے کی ضد کا انجام پاکستان کے وائٹ واش پر ہوا تھا۔

آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کے بعد کوچ نے ہی نئے خون کے نام پر اظہر علی اور محمد حفیظ جیسے آزمودہ کاروں کو باہر کا راستہ دکھا دیا، اس سے اچھی بھلی ٹیم کا شیرازہ بکھرگیا۔ ایشیا کپ میں ہرمیچ میں ٹیم تبدیل کی گئی اور سوائے شان مسعود کے سکواڈ کے ہر کھلاڑی کو آزمایا گیا لیکن وننگ کمبینیشن پھر بھی نہ بن سکا۔

آصف علی اور محمد نواز ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے باصلاحیت کرکٹر ہیں لیکن پچاس اوورز کی کرکٹ ان کے بس کی بات نظرنہیں آئی۔ فہیم اشرف اورحارث سہیل کو بھی ایک میچ کے بعد ہی بنچ پربٹھا دیا گیا لیکن زخمی ہونے کے باوجود شاداب خان کو کھلایا جاتا رہا۔ بھارت کے خلاف دونوں بار ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ بھی 'ٹیم باس‘ کی ضد کا نتیجہ تھا۔

تو پھر ذہنوں میں یہ سوال سلگ رہا ہے کہ ایک شخص کو اتنے سارے شاٹس کھیلنے کی اجازت آخر کس نے دی؟ اصل میں مکی کے اندر کے 'جہاں پناہ‘ کی تاج پوشی خود پاکستان کرکٹ بورڈ نے کی اور یہ کام اسی دن ہوگیا تھا جب اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے لیے مشہور عمر اکمل کے کسی ایک الزام پر بھی کان دھرنا گوارا نہ کیا گیا۔

Asma Kundi
عاصمہ کنڈی اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی عاصمہ کنڈی نے ابلاغیات کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید