پرویز مشرف کے حق میں درخواست: پی ٹی آئی تنقید کی زد میں
26 نومبر 2019چند حلقوں کا خیال ہے کہ ایسی درخواستوں کے پیچھے نہ صرف حکمران جماعت پی ٹی آئی ہے بلکہ ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ بھی سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو سزا سے بچانا چاہتی ہے۔ نہ صرف بہت سے سیاست دان اور وکلاء بھی اس حکومتی اقدام پر غصے میں ہیں بلکہ آج منگل چھبیس نومبر کو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ملکی سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کر دی، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ اسپیشل کورٹ کو ہدایت کی جائے کہ وہ پرویز مشرف کے مقدمے کی کارروائی مکمل کر کے اپنا فیصلہ سنائے۔
پاکستانی میڈیا نے ماضی میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے اعتراف کیا تھا کہ ملکی فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف نے ان کی مدد کی تھی۔ کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ جی ایچ کیو کے اعلیٰ حلقے آج بھی سابق صدر کو سزا بچانا چاہتے ہیں۔
'جمہوریت کے لیے نقصان دہ‘
معروف سیاست دان اور نیشنل پارٹی کے سابق صدر سینیٹر میر حاصل بزنجو کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی پرویز مشرف کا دفاع کر کے اور اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پورا کر کے جمہوریت کو بہت بڑا نقصان پہنچا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں۔ ایک آئین شکن کو غداری کے مقدمے میں بچانے سے آئین شکنوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کو غدار نہ کہا جائے بلکہ آئین شکن کہا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک سے اس سے بڑی کوئی غداری ہو سکتی ہے کہ آپ ملک کا آئین توڑ دیں جو ریاست کی اصل اساس ہے۔ میرے خیال میں مشرف کو صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ بھی بچا رہی ہے، جو نہیں چاہتی کہ فوج کے سابق سربراہ کے سینے پر غداری کا داغ کوئی لگے۔‘‘
پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایسشن کے سابق عہدیدار لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت مشرف کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''پی ٹی آئی مشرف کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے کیونکہ اس حکومت میں اس کے حمایتی موجود ہیں، جو اس کی مدد کر سکتے ہیں۔ ایسی مدد کسی اور حکومت کے دور میں ممکن نہیں۔ پرویز مشرف کو ڈر ہے کہ اگر عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا، تو مشرف کی جائیدادیں اور ساری دولت چھن سکتی ہیں۔‘‘
'اشتہاری کے لیے ریلیف نہیں‘
کئی دیگر قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ پرویز مشرف کو ریلیف مل سکتا ہے لیکن لطیف آفریدی اس پہلو سے اختلاف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''مشرف ایک اشتہاری ہیں اور ایک اشتہاری کو اس وقت تک ریلیف نہیں مل سکتا جب تک وہ عدالت کے سامنے خود پیش نہ ہو۔ میرے خیال میں ان کو اس صورت حال میں کوئی ریلیف نہیں مل سکتا اور عدالتوں کے لیے یہ بھی مشکل ہو گا کہ وہ اسپیشل کورٹ کو فیصلہ سنانے سے روکیں کیونکہ چیف جسٹس نے حال ہی میں اشارتاﹰ پرویز مشرف کے مقدمے کا تذکرہ بھی کیا تھا اور اب لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ اس مقدمے میں سابق آمر کو سزا ملتی ہے یا نہیں۔‘‘
لطیف آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پہلے وہ مشرف کو برا بھلا کہتے تھے اور آج وہ انہیں بچانا چاہ رہے ہیں، ''عمران خان کی زبان پر کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ وہ یو ٹرن لینے کے ماسٹر ہیں۔ پھربول دیں گے کہ یہ یو ٹرن ہے۔ انہوں نے ایسے ٹرن کئی بار لیے ہیں۔‘‘
ن لیگ کا موقف
پرویز مشرف کو نواز شریف کے دور حکومت میں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اب ن لیگ بھی اس مسئلے پر پی ٹی آئی پر تنقید کر رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ حکومت ہی مشرف کی ہے تو وہ اس سابق آمر مطلق کو کیوں نہیں بچائے گی، ''اس حکومت میں پرویز خٹک سے لے کر فروغ نسیم تک، جس نے الطاف حسین کو نیلسن منڈیلا کہا تھا، سب مشرف کے آدمی ہیں۔ ہم تو پہلے ہی دن سے کہہ رہے تھے کہ اس حکومت کو ایک خاص ایجنڈے کے تحت لایا گیا ہے۔ کشمیر سے لے کر سی پیک اور اب مشرف کے مسئلے تک پر، اس حکومت کی پالیسی نے ظاہر کر دیا ہے کہ عمران خان کو ایک خاص مقصد کے لیے اقتدار میں لایا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان کے اس اقدام پر کوئی تعجب نہیں ہوا، کیوں کہ ہمیں پہلے دن سے ہی معلوم تھا کہ یہ کیا کریں گے۔‘‘
پی ٹی آئی کے کچھ رہنما بھی نالاں
اگرچہ پی ٹی آئی کے کئی رہنما اس مسئلے پر حکومت کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں تاہم کچھ رہنما اس حکومتی اقدام سے نالاں بھی ہیں اور اسے پارٹی کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔ پارٹی کے ایک رہنما سید ظفر علی شاہ کا کہنا ہے کہ سیاسی اعتبار سے یہ فیصلہ انتہائی غیر دانش مندانہ ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ایک سیاسی جماعت ہیں۔ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم پرویز مشرف اور عدالتوں کے معاملے میں شامل ہو جائیں۔ مشرف کو سزا ہوتی ہے، تو ہونے دیں۔ اگر ان کی جائیداد چھن جاتی ہے، ضبط ہو جاتی ہے، تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہونا چاہیے۔ اس حکومتی اقدام سے ایک طرف سیاست دان ہم پر تنقید کریں گے تو دوسری طرف وکلاء بھی ہمارے خلا ف ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ میڈیا بھی شدید تنقید کرے گا۔ تو مطلب یہ ہے کہ اس حکومتی اقدام کی وجہ سے ہم ہر طرف سے تنقید اور حملوں کی زد میں ہوں گے۔‘‘