کارگل لڑائی کے بیس سال
26 جولائی 2019کارگل کی لڑائی پاکستان اور بھارت کے درمیان سن اکہتر کے بعد پہلا بڑا مسلحح ٹکراؤ تھی جو دونوں ملکوں کو جنگ کے دہانے لے آئی۔ پاکستان کے لیے کارگل ایک افسوسناک باب ہے، جس پر زیادہ بات کرنے سے اب گریز کیا جاتا ہے۔
مئی سن ننانوے میں شروع ہونے والی یہ لڑائی کوئی دو ماہ جاری رہی۔ اس کا اختتام چھبیس جولائی کو ہوا۔ بھارت اس دن کو اپنی فوجی جیت قرار دیتا ہے اور ہر سال یہ دن 'وجے وکاس‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
کارگل کا محاذ پاکستان کے چند جرنیلوں کی خفیہ حکمت عملی کا نتیجہ تھا، جس کی قیادت اُس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے کی۔ جنرل مشرف پر الزام ہے کہ انہوں نے اس آپریشن کی تیاری میں وزیراعظم میاں نواز شریف کو اعتماد میں نہیں لیا اور منتخب حکومت کو بے خبر رکھا۔
جنرل مشرف نے یہ چڑھائی ایک ایسے وقت شروع کی جب پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے کوششیں جاری تھیں۔ بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اسی سال فروری میں وزیراعظم میاں نواز شریف کی دعوت پر امن کا پیغام لے کر لاھور کا تاریخی دورے کر چکے تھے۔
ایسے میں پاکستان کی فوجی قیادت کی طرف سے کارگل میں نیا محاذ کھولنے سے بھارت سمیت دنیا بھر سے پاکستان پر دوغلے پن کے الزام لگے۔ مسٹر واجپائی نے بعد میں کئی بار شکوہ کیا کہ پاکستان نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا، امن کی خواہش ظاہر کرکے گلے لگایا اور پھر پیٹھ میں چھُرا گھونپ دیا۔
کارگل میں بیٹھے بٹھائے لڑائی شروع کرنے پر دنیا نے پاکستان پر سخت تنقید کی۔ نواز شریف حکومت یکایک بڑے دباؤ میں آگئی۔ حکومت نے پہلے اپنی آرمی کے اس ایکشن کا دفاع کرنے کی کوشش کی کہ اس سے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر ہوا ہے۔ لیکن مغرب ہو یا مشرق، حتٰی کہ چین تک نے پاکستان سے کہا کہ اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوں آپ کارگل کی چوٹیوں سے اپنے فوجی واپس بلالیں۔ عالمی رائے عامہ بھارت کے حق میں تھی اور پاکستان کے خلاف۔
پاکستان کے لیے یہ سفارتی اور فوجی لحاظ سے ایک غیرضروری بحران تھا، جس میں بلآخر پاکستان کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ وزیراعظم نواز شریف ہنگامی بنیادوں پر ایک مختصر ملاقات کے لیے واشنگٹن میں صدر بل کلنٹن سے ملے اور پاکستان نے یک طرفہ جنگبندی اور فوجیں نکالنے کا اعلان کیا۔
اتنا سب کچھ ہو جانے کے باوجود جنرل مشرف آج تک کارگل آپریشن کا دفاع کرتے آئے ہیں۔ جنرل مشرف کا اصرار رہا کہ وزیراعظم کو آپریشن کے بارے میں آگہی تھی۔ ان کا دعوٰی ہے کہ پاکستان کارگل میں فوجی لحاظ سے حاوی تھا لیکن سفارتی محاذ پر نواز شریف نے ہتھیار ڈال کر اسے شکست میں بدل دیا۔
کارگل کے بیس سال بعد آج بھی یہ سوال موجود ہے کہ اس لڑائی سے پاکستان کو کیا حاصل ہوا؟ اس میں حصہ لینے والے جوانوں نے اپنی جانیں کس لیے قربان کیں؟ اس محاذ کے معمار اپنی مہم جوئی کے لیے آج تک قوم کو جوابدہ کیوں نہیں ہوئے؟
بڑے بڑے ملکوں میں بڑے بڑے سانحات ہوجاتے ہیں۔ جنگیں شروع کرنے والے ملک پسپا ہوجاتے ہیں۔ جرمنی اور جاپان اس کی زندہ مثال ہیں۔ لیکن ان ملکوں میں غلطیوں کا سامنا کرنے کی ہمت تھی، اس لیے وہ جنگ و جدل سے نکل کر ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہوگئے۔ پاکستان بھی یہ راستہ اپنا سکتا ہے، لیکن اس لیے ہمیں اپنا ماضی چھپانے کی بجائے اس کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔