1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشتون تحفط موومنٹ کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کا آغاز

بینش جاوید
25 اپریل 2018

پشتون تحفظ موومنٹ کے خدشات کو دور کرنے کے مقصد سے آج  قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں ایک  جرگے کا انعقاد کیا گیا۔ جرگے میں خیبر پختونخواہ کے مختلف نمائندوں نے شرکت کی۔

https://p.dw.com/p/2weDS
Manzoor Pashteen
تصویر: DW/Shah Meer Baloch

پاکستانی قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں منعقد ہونے والے اس جرگے میں پشتون تحفظ مووومنٹ کے رہنما منظور پشتین کے ہمراہ محسن داور نے بھی شرکت کی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے داور نے کہا،’’ جرگے میں مختلف عمائدین، پارلیمانی لیڈرز، پشتون رہنماوں، صوبائی اور وفاقی حکومت کے نمائندگان بھی شامل تھے۔‘‘ اس جرگے کا اعلان گزشتہ روز کیا گیا تھا۔

  منگل چوبیس اپریل کو پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نذیر احمد بٹ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا  کہ پی ٹی ایم کے مطالبات غیر مناسب نہیں ہیں اور وہ ان کے آئینی خدشات کو دور کرنے کے لیے کام کر سکتے ہیں۔  

 اس حوالے سے داور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ہم نے جرگے سے وقت مانگا ہے تاکہ ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشاورت کر سکیں اور یہ فیصلہ کرسکیں کہ ہم کن شرائط پر مذاکرات کو آگے لے کر چلیں گے اور ریاست کے کون کون سے اسٹیک ہولڈرز کا اس مذاکراتی عمل میں شامل ہونا ضروری ہو گا۔‘‘

منظور پشتین ایک ’کرشماتی لیڈر‘

صرف اپنی کہانی سنانے لاہور آئے، منظور پشتین

داور نے خیبر ایجنسی سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا،’’ہماری تحریک عدم تشدد  اور اصولوں پر مبنی ہے اور ہم  مذاکرات ہی چاہتے ہیں۔ ریاست اب ہم سے بات چیت کرنا مان گئی ہے لیکن اس جرگے میں بااختیار نمائندگی ہونی چاہیے۔ ہم ان سے مذاکرات کریں گے جو فیصلہ سازی اور اس پر عمل درآمد کرنے کا اختیار رکھتے ہوں۔‘‘

 داور نے کہا کہ مذاکرات کے لیے فضا بھی ساز گار ہونی چاہیے، ایسا نہیں کہ ایک طرف  مذاکرات کی دعوت آرہی ہو تو دوسری طرف اُن کے ساتھیوں کی گرفتاریاں اور جلسوں کو روکنے کی کوششیں بھی جاری رکھی جائیں۔  اسی حوالے سے داور کا کہنا ہے،’’ ہمیں خوشی ہے کہ کم از کم یہ تو تسلیم کیا گیا ہے کہ ہماری مانگیں جائز ہیں، پہلے تو ہمیں ملک دشمن قرار دیا جا رہا تھا۔‘‘

’مشکل سوالوں پر بحث جامعات میں نہیں تو پھر کہاں ہو گی‘

پختون اب جنگ سے تھک چکے ہیں، منظور پشتین

صحافی امبر رحیم شمسی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ پاکستان کی فوج کو ان سے بات کرنی چاہیے، ان پر پابندی نہیں لگانی چاہیے، ان سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘  امبر کہتی ہیں کہ کئی ماہ تک احتجاج کرنے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی مانگیں لوگوں تک پہنچانے کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ لوگوں کی نظر میں آنا شروع ہوئی اور اب ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں عمائدین شامل ہیں جو  پشتون تحفظ موومنٹ سے بات چیت کریں گے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے سرگرم کارکن محسن داور نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ہمارے مطالبات سب کے سامنے ہیں اور آئین کے دائرہ کار میں ہیں۔ گمشدہ افراد کو عدالتوں میں لے جایا جائے اور وہاں ان کے کیسز کو چلایا جائے۔ ہم صرف عزت کی زندگی گزارنے کا حق مانگ رہے ہیں۔‘‘

صحافی اویس توحید نے ڈی ڈبلیو سے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئےکہا،’’ پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسوں سے لوگ سوشل میڈیا پر لائیو کوریج کر رہے ہیں۔ یہ بہت مشکل ہے کہ ان کی آواز کو روکا جائے، پاکستان کے آئین میں سب کو آزادیء اظہار کا حق ہے ۔‘‘