کراچی کے بلدیاتی انتخابات، غیریقینی سیاسی صورتحال
13 جنوری 2023الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کی جانب سے انتخابات ملتوی کیے جانے کی پانچویں استدعا مسترد کرتے ہوئے چیف سیکریٹری اور آئی جی سندھ سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو حکم دیا ہے کہ 15 جنوری کو الیکشن کے صاف، شفاف اور پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے انتظامات کیے جائیں۔ اب سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کے پاس صرف آرڈینسس کے ذریعے انتخابات ملتوی کرنے کا راستہ باقی رہ جاتا ہے۔
میاں صاحب چابی والا گُڈا نہیں ہیں!
کراچی: نئی سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ کا شکار
الیکشن کمیشن کو فیصلے کا اختیار نہیں رہا، فروغ نسیم
نو متحد ایم کیو ایم کے رہنماؤں وسیم اختر، فاروق ستار اور مصطفٰی کمال کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر قانون فروغ نسیمکا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے حکم کو فالو نہیں کیا جاسکتا کیونکہ آرٹیکل ٹین ون کے آرڈر کے بعد ان کا اختیار ختم ہوچکا ہے۔ کراچی کے حقوق کے لیے پہلے متنازعہ حلقہ بندیوں کو درست کیا جانا ضروری ہے۔ ''الیکشن کمیشن سے درخواست ہے کہ ہمیں بھی سن لیں۔ جب تک حلقہ بندیاں درست نہیں ہونگی الیکشن متنازعہ ہی رہیں گے۔‘‘
الیکشن کمیشن کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں، حافظ نعیم الرحمان
جماعت اسلامی کراچی کے امیر نے شہریوں کو الیکشن کمیشن کے فیصلے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ سازشیں ہورہی ہیں لیکن ناکام بھی ہورہی ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا، '' ہمارے کارکنان تیار ہیں، اب دھرنا الیکشن کمیشن پر نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت اور ایم کیو ایم خوفزدہ ہیں یہ پھر سے وار کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن ان کی ہر سازش ناکام ہوگی، عوام انہیں مسترد کرچکے ہیں، تین جمع ہوجائیں یا 10، یہ تو اپنے کارکنوں کا سامنا نہیں کرسکتے۔‘‘
سندھ حکومت نے بلدیاتی انتخابات کا نوٹیفیکیشن واپس لے لیا
ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی دفتر بہادر آباد پر گزشتہ روز خالد مقبول صدیقی کی مصطفیٰ کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار کے ہمراہ نیوز کانفرنس کے دوران اعلان کیا گیا تھا کہ غیر منصفانہ حلقہ بندیوں کے تحت 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیں گے، جس کے بعد رات گئے سندھ کابینہ نے بلدیاتی حلقہ بندیوں کا نوٹیفیکیشن واپس لینے کی منظوری دی تو ایم کیو ایم کا وفد ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں اظہار تشکر کے لیے وزیر اعلٰی سندھ مراد علی شاہ سے ملاقات کے لیے جا پہنچا۔ سندھ حکومت نے صوبائی الیکشن کمیشن کوخط کے ذریعے کابینہ کے فیصلے سے آگاہ کردیا تھا اور درخواست کی تھی کہ نئی حلقہ بندیوں تک انتخابات ملتوی کردیے جائیں۔
متحد ایم کیو ایم کیو منتقسم ووٹرز کو واپس لاسکے گی؟
تجزیہ کاروں کی رائے میں ایم کیو ایم کے لیے سب سے بڑا چیلنج الطاف حسین ہوں گے۔ کیونہ وہ مسلسل ہر ضمنی انتخاب کا بائیکاٹ کرتے رہے ہیں اور ایم کیو ایم ہو یا پی ایس پی مہاجر ووٹرز کو گھروں سے نکالنے میں ناکام رہی ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہکہ ایم کیو ایم کے دھڑوں میں اتحاد کراچی تک ہے۔ اس میں لندن فریکشن شامل نہیں ہے۔ ان پر غیر اعلانیہ پابندی ہے مگر وہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں، اور تازہ ترین ڈویلپمنٹ کے بعد فوری طور پر تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اتحاد کتنا کارگر ثابت ہوجائے گا۔
مظہر عباس نے کہا، ''ایم کیو ایم کی تقسیم میں ریاستی جبر کا بہت زیادہ عمل دخل رہا ہے۔ اتحاد کے باوجود بھی حیدر عباس رضوی سمیت کئی سینیئر رہنما کراچی میں ہونے کے باوجود نیوز کانفرنس میں نظر نہیں آئے۔ انہیں اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی مشاعرے میں بھی شرکت کرسکیں۔ ایسی صورت حال میں واضح نہیں ایم کیو ایم کے دوبارہ جنم کے بعد اس کی پالیسی کیا ہوگی؟ یا تنظیمی ڈھانچا کیا ہوگا؟ لیکن ایک بات واضح ہے کہ یہ صف بندی بلدیاتی انتخابات سے نہیں بلکہ 2023 کے عام انتخابات کے لیے ہے، مگر ایم کیو ایم کے ووٹرز میں ایک مثبت پیغام ضرور جائے گا کیوں کہ ایم کیو ایم کا ووٹ تحریک انصاف اور تحریک لبیک میں تقسیم ہوگیا ہے، اب سوال یہ ہے کہ متحد ایم کیو ایم الطاف حسین کے بائیکاٹ کے باوجود اپنے ووٹرز کو واپس لا سکے گی؟‘‘
کراچی کا سیاسی کچرا اکٹھا ہوگیا ہے، تحریک انصاف
تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی ارسلان تاج گھمن نے ایم کیو ایم کے اتحاد پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کئی دن پہلے سے معلوم تھا کہ کراچی کا سیاسی کچرا اکٹھا ہو رہا ہے، لیکن یہ سب مل کر آجائیں، انہیں الگ الگ ہرایا ہے۔ ''اب سب مل کر بھی آجائیں، الطاف حسین کو بھی لے آئیں، کراچی والے بے وقوف نہیں ہیں، سارے کچرے کو اٹھا کر ڈبے میں پھینکیں گے۔ ایک زمانہ تھا جب خالد مقبول اور فاروق ستار پریس کانفرنس سے پہلے جی بھائی جی بھائی کیا کرتے تھے۔ آج کل جی سر جی سر ہو رہا ہے، مگر کان کھول کر سن لیں کراچی والے اب بے وقوف نہیں بنیں گے۔‘‘
ایم کیو ایم پر عوامی عدم اعتماد بہت زیادہ ہے، ہما بقائی
معروف ماہر سیاسیات ڈاکٹر ہما بقائی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، '' پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے اور ایم کیو ایم کا عروج و زوال اسی سیاست کا شاخسانہ تھا، جو شہر سٹی بجانے پر کھل اور بند ہوجاتا تھا اسی شہر میں کچھ عرصے تک ایم کیو ایم کا نام لیوا تک نہیں تھا اور پارٹی بالکل محدود ہوگئی تھی اور اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے ہر حکومت کا حصہ بننے کی کوشش کرتے تھے، دھڑوں میں تقسیم ہوئے، اب ان کی مضبوط واپسی دکھائی دے رہی ہے لیکن کیا واپسی زمینی حقائق پر ہے یا اس سیاسی انجنیرنگ کا نتیجہ ہے جو ہمیں ہر جماعت میں دکھائی دیتی ہے۔