جرمن چانسلر او رچینی صدر کے مابین اہم بات چیت
6 جولائی 2021چینی صدر شی جن پنگ نے چھ جولائی پیر کے روز جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے بات چیت کی اور چین اور یورپ کے درمیان تعلقات میں بہتری پر زور دیا۔
دوسری جانب اس ورچوول میٹنگ کے دوران جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے چین میں انسانی حقوق اور ماحولیات سے متعلق مسائل کو اٹھایا۔ ان رہنماؤں کے درمیان یہ گفتگو ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب ہانگ کانگ اور ایغور مسلم اقلیتوں کے تعلق سے چین کے بڑھتے ہوئے آمرانہ رویے سے یورپ اور چین کے درمیان تعلقات قدر ے کشیدہ ہیں۔
تینوں رہنماؤں کے درمیان کیا بات ہوئی؟
فرانس میں ایوان صدر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ گلاسگو میں ماحولیات سے متعلق اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس (سی پی او 26) اور رواں برس کے اواخر میں روم میں ہونے والی جی 20 سربراہی کانفرنس سے قبل اس سے متعلق امور پر مختلف موقف کے حوالے سے تبادلہ خیال کرنے کے لیے یہ بات چیت ہوئی ہے۔
فرانسیسی ایوان صدر کے بیان کے مطابق اس بات چیت کا مقصد ان کانفرنسز کے حوالے سے کئی امور پر پائے جانے والے اختلافات پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ چینی صدر کا کہنا تھا کہ وہ یورپ اور چین کے درمیان بہتر تعاون چاہتے ہیں جبکہ جرمن چانسلر میرکل اور فرانسیسی صدر میکروں نے شی جن پنگ سے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے لیے چینی حکومت کی امداد اور حمایت روکنے کی اہمیت پر زور دیا۔
تینوں قومی رہنماؤں نے یورپ میں چینی کمپنیوں کے لیے اور چین میں یورپی کمپنیوں کے لیے ایک بہتر ماحول بنانے کی سمت میں کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ بات چیت کے دوران ایران جوہری معاہدے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
اس حوالے سے فرانس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ، ''جتنی جلدی ممکن ہو اتنی جلدی کیا جا نا چاہیے۔'' جرمنی، چین اور فرانس ایران جوہری معاہدے کے شراکت دار ہیں جنہوں نے اس معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔
فرانس کی جانب سے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ عالمی وبا کے پس منظر میں، ''ایک دوسرے کے اصول و ضوابط کا خیال رکھتے ہوئے فضائی راستوں کو بھی جتنی جلدی ممکن ہو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔''
انسانی حقوق سے متعلق کیا کہا گیا؟
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانس کے صدر میکروں نے اس موقع پر چینی صدر سے ملک میں، ''جبری مشقت کے خلاف جنگ سے متعلق اپنے مطالبات دہرائے'' اور چین میں ایغور مسلم اقلیتی برادری کے مسائل کے بارے میں بھی بات چیت کی۔
انسانی حقوق کی علمبردار بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ چینی حکام نے تقریباً دس لاکھ ایغوروں اور دیگر بیشتر مسلم برادری کے لوگوں کو قید میں رکھا ہوا ہے۔ ان تنظیموں کے مطابق ان تمام افراد سے حراستی کیمپوں میں جبری مشقت کروائی جاتی ہے۔
ایک الزام یہ بھی ہے کہ چین اس برادری میں نسلی افزائش اور آبادی کو کم کرنے کے مقصد سے خواتین کی جبری نس بندی بھی کروا رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی چین کی حکمراں جماعت 'کمیونسٹ پارٹی آف چائنا' نے اپنے قیام کے سو برس مکمل کیے تھے اور اس موقع پر چینی صدر نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ چین کی اقتصادی ترقی کو اب پیچھے نہیں دھکیلا جا سکتا ہے۔
ص ز۔ ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)