چینی صدر واشنگٹن کے لئے روانہ، اہم معاہدوں پر دستخط متوقع
18 جنوری 2011چینی صدر ہو جن تاؤ کے دورے کو عالمی سطح پر بہت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ صرف دونوں ممالک کے تاجر ہی اس دورے پر نظریں جمائے نہیں بیٹھے بلکہ سیاستدان بھی اس کا بڑی سنجیدگی سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک کے مابین چینی کرنسی یوآن کی قدرکے معاملے پر بہت عرصے سے بحث جاری ہے۔ امریکی حکومت اور ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ چین شعوری طور پراپنی کرنسی کی قدرکو کم رکھے ہوئے ہے۔ اس طرح وہ عالمی سطح پرغیر ضروری تجارتی فوائد حاصل کر رہا ہے، جس سے امریکی روزگار کی منڈی براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔
اس حوالے چین کا مؤقف ہے کہ امریکی حکومت عالمی منڈی میں ڈالر سے ہونے والے کاروبار کو محدود کرے۔ حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں چینی صدر نے یوآن کے حوالے سے امریکی مؤقف کی تائید نہیں کی تھی۔
واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوباما کے جانب سے اپنے مہمان کے اعزاز میں ایک عشائیے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ گزشتہ 13برسوں میں یہ پہلی مرتبہ ہوگا کہ وائٹ ہاؤس میں کسی چین صدر کو سرکاری طور پر عشائیہ پر مدعو کیا گیا ہے۔ اس سے قبل 2006ء میں ہوجن تاؤ کو سابق امریکی صدر جارج بش نے عشائیے کے بجائے ظہرانہ دیا تھا، جسے چینی صدر نے اپنی تذلیل سے تعبیر کیا تھا۔
بدھ کے روز امریکی صدرکے ساتھ اہم امور پر تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ دونوں صدور امریکہ اور چینی تاجروں سے بھی ملاقات کریں گے۔ اس کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا جائے گا۔
باراک اوباما سے ملاقات کے بعد ہو جن تاؤ جمعرات کے روز شکاگو جائیں گے۔ ان کے پروگرام میں کانگریس کے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن رہنماؤں سے ملاقات کرنا شامل ہے۔ ساتھ ہی وہ شکاگو کے میئر رچرڈ ڈیلی کی جانب سے ایک عشائیے میں شرکت اور چینی تاجروں کی کونسل سے خطاب بھی کریں گے۔ ہو جن تاؤ کے دورے کے تناظر میں امریکی سینیٹرز کا کہنا ہے کہ وہ کانگریس پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ چینی صدر کو یوآن کی قدر میں جان بوجھ کرکمی کرنے سے باز رہنے پر مجبور کرے۔
مبصرین کے خیال میں گزشتہ 30 برسوں کے دوران کسی چینی لیڈر کا امریکہ کا یہ اہم ترین دورہ ہے۔ کیونکہ اس دوران نا صرف چین امریکہ کے بعد دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے بلکہ عسکری اور سیاسی اعتبار سے بھی چین ایک بڑی قوت بن کر ابھرا ہے۔ دنیا میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو مزید واضح کرتے ہوئے اخبار فنانشل ٹائمز نے لکھا ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران چین نے ترقی پذیر ممالک کوعالمی بینک سے زیادہ قرضے دیے ہیں۔ اخبار کے مطابق2009ء اور2010ء کے دوران چین کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضوں کا حجم 110 ارب ڈالر بنتا ہے۔
دوسری جانب چینی خبر رساں ادارے 'شنہوا' نے بتایا ہے کہ بیجنگ حکومت کی جانب سے ایک تجارتی وفد چار روزہ دورے پر امریکی شہر ہیوسٹن میں ہے۔ اس دوران دونوں ممالک کے مابین چھ معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے، جن کی مالیت 574 ملین ڈالر بنتی ہے۔
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت : افسر اعوان