خیبرپختونخوا: پولیس اسٹیشن پر حملہ، کم از کم دس ہلاکتیں
6 فروری 2024پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے ایک پولیس اسٹیشن پر مسلح دہشت گردوں کے حملے میں کم از کم دس پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور دیگر چھ کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
خیرپختونخوا کے ڈسٹرکٹ ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک مقامی اہلکار محمد افضل نے ایک بیان میں کہا کہ پیر کو طلوع فجر سے پہلے مشتبہ دہشت گردوں نے ایک تھانے پر دھاوا بول دیا۔ محمد افضل کے مطابق حملہ آوروں نے پہلے تھانے کی عمارت پر دستی بم پھینکے۔ بعد ازاں پولیس کے ساتھ ان کی لڑائی شروع ہوئی جو کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔
اس تازہ ترین دہشت گردانہ حملے کوگزشہ ہفتوں کے دوران رونما ہونے والا بدترین اور انتہائی مہلک حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ خاص طور سے ایک ایسے وقت میں جب ملک کے عام انتخابات کے انعقاد میں چند روز باقی ہیں، پاکستان میں مسلم عسکریت پسندی اور تشدد میں واضح اضافہ ہو رہا ہے۔ جمعرات آٹھ فروری کو پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہونا ہے تاہم یہ جنوبی ایشیائی ملک ایک بار پھر تشدد کی لہر اور سکیورٹی خدشات کا شکار نظر آ رہا ہے۔
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبرپختونخوا کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ ہندو کش کی اس ریاست میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے ملک میں شورش زدگی اور دہشت گردی میں اضافے کے ضمن میں پڑوسی ملک افغانستان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان ٹی ٹی پی کے ٹھکانے وہاں موجود ہیں اور پاکستان کے اندر ہونے والے حملوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں اس کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس افغان طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں سکیورٹی کی ابتر صورتحال اور آئے دن کے دہشت گردانہ حملے پاکستان کا داخلی معاملہ ہے۔
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس طرح کے زیادہ تر حملے خیبرپختونخوا میں ہی ہوئے ہیں، جہاں جنوری 2023 ء میں عسکریت پسندوں نے کم از کم 101 افراد کو ہلاک کیا تھا، جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار شامل تھے۔حکام کے مطابق ایک خودکش حملہ آور نے پولیس اہلکار کے بھیس میں پشاور میں ایک مسجد پر کیا تھا۔
پیر کی علی صبح عسکریت پسندوں نے تین بجے کے وقت حملہ کیا، جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ زخمی پولیس افسروں میں سے ایک نصیب خان نے ایک ہسپتال سے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ زیادہ تر پولیس اہلکار سنائپر فائر کا نشانہ بن کر ہلاک یا زخمی ہوئے۔ نصیب خان کا کہنا تھا،'' چووان کے علاقے میں ہمارے تھانے پر دہشت گردوں نے پہلے ہینڈ گرنیڈ پھینکا اور جب ہم نے جوابی کارروائی شروع کی تو سنائپرز فائر ہونا شروع ہو گئے۔‘‘ نصیب خان کو ہاتھ میں گولی لگی۔ ایک اور زخمی اہلکار، شراف خان نے بتایا کہ پولیس اور شر پسند باغیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ گھنٹوں تک جاری رہے اور اضافی سکیورٹی اہلکاروں کے پہنچتے ہی یہ دہشت گرد فرار ہو گئے۔
ک م/ ع ت(ڈی پی اے)