کراچی، اسٹریٹ کرائمز سے پریشان عوام کہاں جائیں؟
25 ستمبر 2022تین کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کراچی کے باسی ان دنوں پھر سے ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہیں۔ شہر میں مسلح لٹیرے دندناتے پھرتے ہیں۔ بزرگ اور خواتین سمیت جس کو چاہتے ہیں، جب چاہتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں لوٹ لیتے ہیں اور مزاحمت پر قتل کرنے سے بھی دریخ نہیں کرتے۔ ماہرین معاشی صورت حال اور سماجی ناہمواریوں کو بھی شہر میں بڑھتے جرائم کی اہم وجوہات قرار دیتے ہیں۔
رواں ماہ کے دوران اب تک 12 شہری ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل کیے جاچکے ہیں جبکہ اس سے تین گناہ افراد ایسی وارداتوں کے دوران زخمی بھی ہوئے ہیں۔ کراچی میں یومیہ ایک درجن سے زائد اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں روپورٹ ہوتی ہیں جبکہ تجزیہ کاروں کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جس کی یا تو پولیس کرائم ریٹ کم ظاہر کرنے کیلئے رپورٹ درج نہیں کرتی یا پھر شہری خود پولیس کے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔
کراچی تاجر برادری بھی امن و امان کی صورتحال خصوصاﹰ اسٹریٹ کرمنلز سے پریشان ہیں۔ اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے انہوں کراچی پولیس چیف جاوید عالم اڈھو کو کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز میں مدعو کیا۔ مگر بجائے اسکے کہ پولیس چیف تاجر برادری کی ببتا سنتے انہوں نے تو الٹا تاجروں کو ہی مورد الزام ٹھہرادیا۔
کراچی میں جرائم کا واویلا زیادہ ہے، پولیس چیف
کراچی پولیس چیف کے مطابق شہر کی آبادی کا تناسب تبدیل ہوا ہے۔ پہلے شہر میں اردو بولنے والے آبادی کا 65 فیصد تھے لیکن اب یہ 35 فیصد رہ گئے ہیں جبکہ تقریباﹰ اتنے ہی پشتون بھی شہر میں آباد ہیں۔25 فیصد کے قریب سندھی اور بلوچ کراچی آکر آباد ہوئے ہیں جو جرائم میں بھی ملوث ہیں اور اس کی سماجی اور معاشی وجوہات بھی ہیں۔
پولیس چیف کے مطابق، "کراچی میں جرائم کی شرح کسی بھی ترقیاتی ملک کے شہریوں کے مقابلے میں کم ہے۔ تاجر برادری اپنی دشمن خود ہے۔ یہ لوگ واویلا کرتے ہیں اور بلاوجہ سمسنی پھیلاتے ہیں۔ ہر معاملہ میڈیا پر لے آتے ہیں اور پھر کہتے ہں سرمایہ کاری نہیں آرہی۔ لاہور میں کرائم کراچی سے زیادہ ہے لیکن کبھی میڈیا پر نہیں آتا۔ نیویارک، لندن، ممبی کے مقابلے میں کراچی میں جرائم کی شرح کم ہے۔ کراچی بنیادی طور پر جرائم پیشہ افراد کا شہر نہیں ہے۔"
اسٹیریٹ کرائمز کے باعث کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر
پولیس چیف کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ممتاز تاجر اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سرگردہ رکن زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ کراچی میں لاقانونیت اور اسٹریٹ کرائمز نے تاجروں کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس صورتحال سے کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔
ڈوچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے زبیر موتی والا نے کہا کہ فیکڑی ورکرز رات کے اوقات میں لٹنے کے ڈر سے کام پر آنے کو ہی تیار نہیں ہیں۔ پولیس چیف کا بیان حقیقت سے نظر چرانے کے مترادف ہے۔ دراصل اس شہر میں پولیس کی رٹ ختم ہوگئی ہے۔ اب رینجرز کو سڑکوں کر آنا ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی کو انکار نہیں کہ اسٹریٹ کرائم کی بڑی وجوہات مہنگائی اور بے روزگاری ہیں لیکن جرائم کنٹرول کرنا پولیس کا کام ہے۔ انہیں اس کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔
معاشی بدحالی، سماجی ناہمواریاں بھی جرائم بڑھنے کہ وجہ
ماہرین کے مطابق معاشی مسائل آبادی کے بے پناہ دباؤ کے شکار اس شہر میں جرائم کے بڑھنے کی سب سے اہم وجہ ہے۔ جامعہ کراچی شعبہ نفسیات کی چیر پرسن ڈاکٹر انیلہ امبر ملک نے ڈوچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ معاشی اسباب میں غربت اور بے روزگاری اسٹریٹ کرائم کی بڑی وجوہات ہیں لیکن اگر اس مسئلے کے صرف نفسیاتی پہلو پر بات کی جائے تو ہم عمر دوستوں کے ایسے گروہ جن کے مشاغل ایک جیسے ہوں تفریح کی غرض سے یا ایڈونچر اور تھرل انہیں اس طرح کے خطروں سے کھیلنے کی جانب مائل کرتا ہے۔ اس صورت حال کو "پیر پریشر" کہا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا، ''نوعمر افراد کے علاوہ بالغ افراد کے اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہونے کی بنیادی وجہ اخلاقی پستی اور تربیت کا فقدان ہے۔ یہ مسائل معاشی تنگدستی کی صورت میں فرد یا افراد کو جرم کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ نفسیات میں ایسی گھرانوں کیلئے 'ڈس فنکشنل فیملی‘ کی ٹرم استعمال کی جاتی ہے۔ ایسے گھرانے جہاں ماں باپ اپنے فرائض ادا نا کرسکیں، مار پیٹ کی وجہ سے گھر کا ماحول بچوں کو باہر کا راستہ دکھائے۔ ایسے خاندان جو اپنی بقا کیلئے معاشی محاذ پر مصروف رہیں اور بچوں کی تربیت کو یکسر نظر انداز کردیا جائے تو ان کے بچے سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث افراد کی قربت حاصل کرلیتے ہیں۔‘‘
اسٹریٹ کرائم صرف کراچی کا مسئلہ نہیں رہا
پاکستان میں اسڑیٹ کرائمز صرف کراچی کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی ایسی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ خیبر پختون خواہ میں بھتہ خوری سمیت دیگر معاشی جرائم کی خبریں تسلسل سے آرہی ہیں۔ تاہم صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس اس بات کی سختی تردید کی ہے۔
معظم جاہ انصاری نے ڈوچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ محض جھوٹا پروپگنڈہ ہے اور پشاور میں اسٹریٹ کرائم بڑھنے کی خبروں کے پیچھے کچھ اور عوامل کار فرماں ہیں۔
معظم جاہ بولے، ''جرائم کا پیمانہ ریکارڈ کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے میڈیا کی خبروں سے نہیں۔ گذشتہ چار ماہ کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ جرائم کی شرح بڑھی نہیں بلکہ کم ہوئی ہے لیکن یہ بات درست ہے کہ خراب معاشی صورت حال کے باعث معاشرے میں پھیلی بے چینی، بے روزگاری اور ڈپریشن افراد کو جرائم کی جانب مائل کرتی ہے۔ کے پی ایک حساس صوبہ ہے لہذا یہاں کی پولیس کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے۔"
لاہور میں بھی جرائم کی شرح بڑھی ہے
کراچی اور پشاور کی طرح لاہور میں اسٹریٹ کرائم کے کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس سے شہر میں دہشت پھیلی ہے تاہم لاہور پولیس کے چیف غلام محمود ڈوگر اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ڈوچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے ڈوگر نے کہا کہ جرائم کی شرح مجموعی طور پر پورے ملک میں بڑھی ہے جس کی بنیادی وجہ معاشی اور سماجی مسائل ہیں۔
انہوں نے کہا، ''جب روزگار کی تلاش میں لوگ بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں تو آبادی پر دباؤ کے ساتھ جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لاہور میں جرائم کی شرح ضرور بڑھی ہے مگر غیر معمولی صورتحال نہیں ہے۔ لاہور پولیس نے حالیہ دنوں میں کئی خطرناک جرائم پیشہ گروہوں کا قلع قمع کیا ہے مگر جرائم کا مکمل خاتمہ وسائل کے مساوی تقسیم سے ہی ممکن ہے۔‘‘