کراچی دھماکہ: کم از کم 18 افراد ہلاک ،130 زخمی
12 نومبر 2010قبل ازیں جدید اسلحے سے لیس پانچ سے چھ کار سواروں نے سی آئی ڈی سینٹر کی عمارت کے سکیورٹی گارڈز پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے جواب میں سکیورٹی اہلکاروں نے بھی فائر کھول دئے۔ دو طرفہ فائرنگ کا یہ سلسلہ تقریباﹰ دس منٹ تک جاری رہا۔ اسی دوران دھماکہ خیز مواد سے لدھا ایک ٹرک اس بلڈنگ کے اندر داخل ہوا اور اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی۔ دھماکہ اس قدر زور دار تھا کہ اس کی شدت سے عمارت کا سامنے کا حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کی شدت سے کراچی کے متعدد علاقے لرز اُٹھے۔ بتایا جاتا ہے کہ جائے وقوعہ پر 15 سے 20 فٹ گہرا گڑھا بن گیا ہے۔ اس بلڈنگ کے ایک کلو میٹر کے علاقے پر قائم رہائشی مکانوں اور دفاتر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے کہا ہے کہ یہ دھماکہ ماضی میں اسلام آباد کے میریئٹ ہوٹل پر کئے گئے حملے سے مطابقت رکھتا ہے۔ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند روز سے پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کی حیثیت رکھنے والے شہر کراچی میں چند مشتبہ افراد کی نقل و حرکت دیکھی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) کے دفاتر کے اس علاقے میں اعلیٰ پروفیشنل افراد کام کرتے ہیں اس لئے وہاں سکیورٹی کے سخت اقدامات ہوتے ہیں۔ دریں اثنا تین مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
دھماکے کے فوراً بعد تباہ شدہ عمارت سے ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو نکالنے اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کا کام شروع کر دیا گیا۔ جناح ہسپتال کی انتظامیہ نے بتایا ہے کہ صرف اس ہسپتال میں لائے جانے والے زخمیوں کی تعداد 100 سے زائد ہے جبکہ سول ہسپتال سمیت شہر کے دیگر ہسپتالوں میں بھی زخمیوں کو پہنچایا گیا ہے۔ زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
اس بم دھماکے کی شدت سے آس پاس کے علاقوں میں بجلی کے کھمبے گر گئے اور بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی ۔ اس کے سبب امدادی کارروائیوں میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شہری انتظامیہ کے مطابق بم دھماکے سے منہدم ہونے والی عمارت کا ملبہ اٹھانے کے لئے مشینری منگوا لی گئی ہے اور امدادی کارروائیوں کو تیز تر کر دیا گیا ہے۔ انتظامیہ کے مطابق ملبہ صاف کرنے کا کام کم از کم آئندہ 24 گھنٹے جاری رہے گا۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: ندیم گِل