کم عمری کی شادیوں کے خلاف بل: خواتین حلقوں کی طرف سے خیرمقدم
30 اپریل 2019پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر اس بل کو قومی اسمبلی میں منظور کروایا گیا تو وہ اس کی سخت مخالفت کریں گی۔ کل پیر انتیس اپریل کو پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے کم عمری کی شادیاں روکنے کے لیے ایک قانونی بل منظور کر لیا تھا، جس کے تحت کسی بھی لڑکی کی شادی کے لیے اس کی کم از کم عمر اٹھارہ برس ہونا چاہیے۔ زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے اس بل کی حمایت کی لیکن جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ نے اس کی بھر پور مخالفت کی تھی۔ یہ بل اب منظوری کے لیے قومی اسمبلی کو بھیجا جائے گا۔
پاکستان میں کم عمری کی شادیاں عام ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ایسی شادیوں کی شرح اکیس فیصد ہے، جن کی وجہ سے خواتین کو بہت سے طبی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کے خیال میں اس بل سے خواتین کے استحصال کو روکنے میں مدد ملے گی۔
معروف سیاستدان اور سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر نے اس بل کی منظوری پر اس کی محرک سینیٹر شیری رحمان کو مبارکباد دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ’’کچھ مولوی حضرات جو خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کے خلاف ہیں اور جو شریعت کی تشریح اپنے مفادات کے مطابق کرتے ہیں، وہ اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ووٹ، شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اٹھارہ برس کی عمر کی حد ہے، تو شادی کیوں تیرہ یا چودہ برس کی عمرمیں ہونا چاہیے۔ کم عمری کی شادی پاکستان کے آئین اور بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہے جب کہ یہ بل ان قوانین کے مطابق ہے۔ اس لیے ہم اس بل کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ارکان کا خیال ہے کہ کم عمری کی شادیاں نہ صرف بین الاقوامی قوانین کےخلاف ہیں بلکہ ان کی وجہ سے کئی معاشرتی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔‘‘ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی رکن انیس ہارون کے خیال میں اس بل سے خواتین کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا، ’’دنیا بھر میں طبی ماہرین کا خیال ہے کہ خواتین کی ذہنی اور جسمانی صلاحتیں اٹھارہ برس کی عمر تک زیادہ مستحکم ہو جاتی ہیں، جن کی وجہ سے وہ ذہنی اور جسمانی دباؤ کا مقابلہ آسانی سے کر سکتی ہیں۔ دوسری طرف کم عمری کی شادیوں سے نہ صرف خواتین کی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ یہ بچوں اور ماؤں میں شرح اموات میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہیں۔ ایسی شادیاں آبادی کے بہت زیادہ بڑھتے جانے اور خواتین کے خلاف تشدد کی بھی وجہ بنتی ہیں۔ لہٰذا اس بل کی منظوری خوش آئند ہے۔‘‘
انیس ہارون کا کہنا تھا کہ اب یہ ضروری ہے کہ تمام صوبوں میں اس بل کا اطلاق ہو اور وہ اس مسئلے پر بالکل ہم خیال ہوں۔ انیس ہارون کے مطابق، ’’صرف سندھ میں اس وقت شادی کی قانونی حد اٹھارہ برس ہے۔ ایسا دوسرے صوبوں میں بھی ہونا چاہیے۔ تمام صوبوں کو اس حوالے سے ایک ہی پالیسی اپنانا چاہیے۔‘‘
پاکستان میں کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اس مسئلے پر قومی اسمبلی میں گرما گرم بحث ہوگی اور دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں پارلیمنٹ کے باہر بھی اس مسئلے پر طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کریں گی۔ تاہم معروف سماجی کارکن اور حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی فرزانہ باری کہتی ہیں کہ یہ بل قومی اسمبلی سے بھی منظور ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا، ’’جماعت اسلامی اور جے یو آئی ایف کے ارکان کی قومی اسمبلی میں کوئی خاص تعداد نہیں ہے۔ اس بل کے حوالے سے پی پی پی کی لائن بہت واضح ہے اور میرے خیال میں پی ٹی آئی اور ن لیگ بھی اس بل کی مخالفت کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔‘‘
ماضی میں کمر عمری کی شادیوں پر پابندیوں کی مخالفت سب سے زیادہ جے یو آئی ایف کے مولانا شیرانی نے بھی کی تھی، جو اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ انہوں نے اس کونسل کی سربراہی کے دوران اس حوالے سے کئی متنازعہ بیانات دیے تھے، جن پر سول سوسائٹی نے کافی احتجاج کیا تھا۔
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ مولانا شیرانی کا تعلق جے یو آئی ایف کے سخت گیر حلقوں سے ہے۔ تاہم پارٹی کے سابق مرکزی نائب امیر اور سابق سینیٹر حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کا موقف اب بھی وہی ہے، جو پہلے تھا۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے خیال میں شادی کی کوئی عمر مقرر نہیں ہے اور اس کا تعلق بلوغت سے ہے۔ لڑکی کی شادی بلوغت کے بعد ہونا چاہیے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ لڑکی بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں بالغ نہیں ہوتی، وہ دیکھ لیں کہ یورپ میں کئی کم عمر لڑکیاں حاملہ ہو رہی ہیں اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں بھی لڑکی بارہ یا چودہ سال کی عمر میں ماں بن جاتی ہے۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ کچھ لڑکیاں جلدی بلوغت کو پہنچیں اور کچھ دیر سے۔ تاہم شادی کا تعلق صرف بلوغت سے ہونا چاہیے اور اس کے لیے عمر کی حد مقرر نہیں کی جانا چاہیے۔‘‘
حافظ حسین احمد کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ مسئلہ شرعی نوعیت کا ہے۔ اس لیے اس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجا جانا چاہیے، ’’اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ آئینی مینڈیٹ ہے کہ وہ کسی بھی ایسے مجوزہ قانون کا جائزہ لے، جس کا تعلق مذہب اور شریعت سے ہو۔ چونکہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے، اس لیے کونسل کی رائے لینا بہت ضروری ہے۔ اگر حکومت نے کونسل کو بھیجے بغیر اس بل کو قومی اسمبلی سے منظور کروایا، تو ہم اس کی بھرپور مخالفت بھی کریں گے اور اس کے خلاف احتجاج۔‘‘