کوریائی ریاستوں کے انضمام میں کس کا نفع کس کا نقصان
5 جنوری 2012مبصرین کے خیال میں اقتصادی طور پر زیادہ خوشحال ملک جنوبی کوریا میں بہت سے لوگ شمال کے ساتھ اتحاد کے خواہش مند ہیں۔ یہ خواہش محض انہی لوگوں کے دلوں تک محدود نہیں ہے، جنہوں نے 1945ء میں متحد کوریا کو سابق سوویت یونین اور امریکہ کے انتظام میں تقسیم ہوتے ہوئے دیکھا۔
فوری طور پر دونوں کوریائی ریاستوں کے اتحاد کی صورت میں اقتصادی مشکلات کے سبب پناہ گزینوں کا سیلاب جنوبی کوریا کی جانب رُخ کرسکتا ہے، جو وہاں کی معیشت پر بوجھ بن سکتا ہے۔ شمالی کوریا میں کمیونسٹ حکومت کی ممکنہ تحلیل اور جنوب سے انضمام کی صورت میں جنوبی کوریا پر، جو حالیہ کچھ برسوں میں بر اعظم ایشیا میں ایک بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے کئی ٹریلین ڈالر کا بوجھ پڑ سکتا ہے۔ جنوبی کوریا کی حکومت سے منسلک ایک ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق اس بوجھ کی مالیت قریب ڈھائی ٹریلین ڈالر ہوسکتی ہے۔
سیاسی امور کے ماہرین کے خیال میں جزیرہ نما کوریا میں وہ کچھ ہونے کے امکانات خاصے کم ہیں، جو جرمنی میں ہوا، یعنی مشرقی اور مغربی جرمنی کا تاریخی انضمام اور غربت کے مارے مشرقی جرمنی کے لیے مغربی جرمنی کی مضبوط معیشت کا فوری اور دیرپا سہارا ملنا۔ شمالی کوریا کے آنجہانی حکمران کم جونگ ال کے بیٹے کم جون اُن اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں اور انہیں ملکی حکومت اور فوج کی حمایت حاصل ہے۔ کم جونگ ال نے کمیونسٹ کوریا پر 17 برس حکمرانی کی۔ سوئٹزرلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے والے ان کے بیٹے اُن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے والد کے مقابلے میں بیرونی دنیا سے اتنے زیادہ خائف نہیں۔
عوامی سطح پر دونوں ممالک اتحاد کی بات کرتے ہیں مگر دونوں اس کی تشریخ اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں۔ شمالی کوریا دو ریاستی وفاقی کوریا چاہتا ہے، جس میں دونوں اپنے اپنے نظام کے تحت حکومت کریں۔ امریکہ کا اہم اتحادی ملک جنوبی کوریا ایک متحد اور ترقی پسند جمہوریہ کے قیام کا خواہش مند ہے۔
جنوبی کوریا میں ممکنہ انضمام کے مالی اخراجات پورے کرنے کے لیے نیا محصول عائد کرنے کا بھی سوچا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ مغربی جرمنی میں یہی ماڈل اپنایا گیا تھا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ شمالی کوریا کی آبادی جنوبی کوریا کے نصف آبادی کے برابر ہے جبکہ مشرقی جرمنی کی آبادی مغربی جرمنی کی ایک چوتھائی کے برابر تھی۔
رائل بینک آف سکاٹ لینڈ سے وابستہ ماہر اقتصادیات ایرک لیوتھ کے بقول مشرقی جرمنی کا شمار سوویت حکومت کے زیر تسلط مالدار ترین ریاستوں میں ہوتا تھا مگر شمالی کوریا جنوبی کوریا کے مقابلے میں بہت غریب ہے۔ ایک اور فرق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جہاں مشرقی جرمنی کا حکمراں طبقہ مغربی جرمنی کا سرمایہ دارانہ نظام اپنانے کی جانب مائل تھا اس کے برعکس شمالی کوریا کا حکمراں طبقہ اتنی آسانی سے اپنے اختیارات سے دستبردار نہیں ہوگا۔
ایک امریکی تھنک ٹینک سے وابستہ سیاسی امور کے ماہر رالف کوسا کے بقول جنوبی کوریا سے انضمام شمالی کوریا کے حکمراں طبقے کے لیے بھیانک مگر عوام کی خوشحالی کا سبب بنے گا مگر کچھ درد بھری تبدیلیوں کے بعد۔ ان کے بقول اسی طرح جنوبی کوریا کے لیے شمال سے اتحاد بہت زیادہ خوشحالی تو نہیں لائے مگر ایک جارحانہ مزاج اور جوہری اسلحے سے لیس پڑوسی ملک کے ساتھ رہنا بھی جنوبی کوریا کے لیے تکلیف دہ ہے ۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت :عاطف بلوچ