کیا اسلام آباد کو ایک اور لانگ مارچ کا سامنا ہو گا؟
23 اکتوبر 2022الیکشن کمیشن کی جانب سےگزشتہ جمعے کے روز عمران خان کو بطور وزیر اعظم سرکاری تحائف فروخت کرنے اور اثاثے درست ڈکلئیر نا کرنے پر پانچ سال کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے عمران خان ملکی پارلیمنٹ میں اپنی نشست بھی کھو بیٹھے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق الیکشن کمیشن کے اس فیصلے نے پاکستان میں جاری سیاسی انتشار کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ رواں سال پاکستان میں مون سون کی بارشوں اور تباہ کن سیلاب کے بعد اب تک 1,725 افراد ہلاک، لاکھوں بے گھر ہوئے جبکہ ملیریا اور دیگر وبائی بیماریوں میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔ ساتھ ہی ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، زبوں حالی کا شکار معیشت، خوراک کی قلت اور دیگر کئی بنیادی مسائل نے پہلے ہی عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کر رکھا ہے۔ اب اس سیاسی گرما گرمی سے عوام کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے میں وقت سامنے آیا ہے، جب خان، وزیر اعظم شہباز شریف کی نئی حکومت کے خلاف اپنے حامیوں کو اکٹھا کر نے میں مصروف عمل تھے اور موجودہ حکومت سے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس فیصلے کے بعد دارالحکومت اسلام آباد میں تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے مظاہرے بھی شروع کیے گئے تاہم عمران خان نے پی ٹی آئی کارکنان سے پر امن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے یہ کہا کہ وہ مارچ کے لیے ان کی کال کا انتظار کریں۔
الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ شہباز شریف کی مخلوط حکومت کی جانب سے ایک درخواست کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں موجودہ حکومت کی جانب سے خان کے خلاف توشہ خانہ کیس پر کارروائی کی درخواست کی گئی تھی۔ پاکستان میں حکومتی رہنماؤں کو غیر ملکی تحفے اس صورت میں رکھنے کی اجازت ہے، جب وہ اس کی قیمت ملکی خزانے میں جمع کروا دیں۔ لیکن عموماﹰ انہیں بیچے جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور وہ ملکی خزانے میں جمع کروا دیے جاتے ہیں۔
عمران خان کے ترجمان فواد چوہدری کے مطابق خان کی نااہلی کو چیلنج کرنے کے لیے ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ہے، جس کی فوری سماعت کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ عدالت الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے گی۔
سن 2018 میں برسراقتدار آنے والے تحریک انصاف کے رہنما نے اپنا عہدہ چھوڑتے وقت ثبوت فراہم کیے بغیر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ ان کی حکومت گرانے میں واشنگٹن کا ہاتھ ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے خان کا کہنا تھا کہ وہ اگلے جمعے کو لانگ مارچ کے اعلان کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس موقع پر سینیٹر اعظم سواتی خان بھی ان کے ساتھ موجود تھے، جو حال ہی میں ضمانت پر جیل سے رہا ہوئے ہیں۔ سواتی کو 13 اکتوبر کو ملک کے آرمی چیف کے خلاف ٹویٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ سواتی نے اپنے خلاف ہونے والے تشدد پر کہا کہ عدلیہ اس کا نوٹس لے۔ انہوں نے کہا، ''پارلیمانی ارکان اور وکلاء برادری کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔‘‘
ر ب/ ا ا (اے پی)