عمران خان اپنی جیتی ہوئی چھ نشستوں کا کیا کریں گے؟
18 اکتوبر 2022پاکستان میں مروجہ انتخابی قوانین کے مطابق مختلف سیٹوں پر انتخاب جیتنے والا کوئی بھی شخص صرف ایک ہی سیٹ اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اس لیے متعدد نشستوں پر منتخب ہونے والے شخص کو اپنے انتخاب کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر ایک کے علاوہ باقی تمام نشستوں سے دستبردار ہونا ہوتا ہے۔ عمران خان پہلے ہی میانوالی سے رکن اسمبلی منتخب ہو کر حلف اٹھا چکے ہیں۔ ابھی ان کا قومی اسمبلی سے دیا جانے والا استعفیٰ بھی منظور نہیں ہوا، اس لیے اس سابق وزیر اعظم کو عملاﹰ قومی اسمبلی کی اپنی حال ہی میں جیتی ہوئی تمام چھ نشستوں سے دستبردار ہونا ہو گا۔
خان صاحب جیتے یا الیکشن کمیشن؟
ان کی یہ کامیابی ان کے لیے پارلیمانی سیاست میں بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہو گی۔ البتہ وہ اسے اپنی مقبولیت کا ثبوت بتا کر اور اپنے آپ کو مختلف صوبوں سے کامیابی حاصل کرنے والا قومی سطح کا لیڈر ظاہر کرکے اپنے مخالفین پر اپنی دھاک جمانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
چھ کی چھ نشستوں پر دوبارہ انتخاب؟
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اتوار 16 اکتوبر کے ضمنی الیکشن میں بیک وقت چھ نشستیں جیت کر اپنا ہی گزشتہ ریکارڈ توڑا تھا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں وہ بیک وقت پانچ نشستوں پر جیت کر پاکستان میں ایک ہی الیکشن میں سب سے زیادہ سیٹیں جتنے والے رکن پارلیمنٹ بنے تھے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق حال ہی میں عمران خان نے پارلیمنٹ میں نہ جانے کا اشارہ دیا ہے۔اس لیے توقع کی جا رہی ہے کہ یہ چھ کی چھ نشستیں دوبارہ خالی ہو جائیں گی اور الیکشن کمیشن کو ان سیٹوں پر دوبارہ انتخابات کرانا ہوں گے ۔ لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا عمران خان پھر ان نشستوں پر الیکشن لڑیں گے یا کوئی اور حکمت عملی اختیار کریں گے۔
ضمنی الیکشن: پی ٹی آئی کامیاب، مگر سیاسی نقصان کس کس کا ہوا
لوگ ایک سے زائد نشستوں سے الیکشن کیوں لڑتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں تجزیہ نگار مزمل سہروردی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک سے زائد نشستوں پر عام طور پر پارٹی سربراہان اور وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کے علاوہ اہم اور بااثر سیاست دانوں کو الیکشن لڑایا جاتا ہے۔ اس فیصلے کے پیچھے غالباﹰ ان کا یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں پارٹی سربراہ ایک سیٹ سے الیکشن ہار کر پارٹی کی انتخابی جیت کی صورت میں کہیں خود ہی آئندہ حکومت سے باہر نہ ہو جائے۔ کچھ لوگ اپنے آپ کو قومی سطح کا لیڈر ظاہر کرنے کے لیے بھی مختلف صوبوں سے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں۔
ضمنی انتخابات: عمران خان بقابلہ حکمران اتحاد
بعض اوقات کئی سیاست دان بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے اس لیے الیکشن لڑتے ہیں کہ پارٹی کی انتخابی فتح کے بعد اگر انہیں صوبائی وزارت اعلیٰ کا چانس ملے تو وہ قانوناﹰ یہ عہدہ قبول کر سکتے ہوں، ورنہ وہ اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر قومی اسمبلی میں چلے جاتے ہیں۔
مزمل سہروردی کے نزدیک عمران خان کی حالیہ ضمنی الیکشن میں بیک وقت چھ حلقوں سے جیت بالکل ایک انوکھا واقعہ ہے۔ ان کے بقول عمران خان نے قومی پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور یوں وہ فی الحال تو وزیر اعظم بن نہیں سکتے، تاہم عوامی سیاست کے لیے انہوں نے پھر بھی متعدد سیٹوں پر الیکشن لڑنا مناسب سمجھا۔
وقت اور پیسے کا ضیاع
پاکستان الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور محمد دلشاد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کا آئین کسی بھی شخص کے ایک سے زائد نشستوں سے الیکشن لڑنے پر کوئی پابندی نہیں لگاتا۔ لیکن ان کے بقول ایک ہی نشست پر بار بار الیکشن کرانے سے قوم کا وقت اور پیسہ دونوں ضائع ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک جو شخص الیکشن لڑ کر اپنی سیٹ سے دستبردار ہو جاتا ہے یا پھر حلف اٹھانے سے گریز کرتا ہے، وہ دراصل اس حلقے کے ان ووٹروں کا جمہوری حق ادا نہیں کرتا، جنہوں نے اس پر اعتماد کا اظہار کر کے اسے منتخب کیا ہوتا ہے۔
ضمنی انتخابات میری مقبولیت پر ریفرنڈم ہیں، عمران خان
ایک سوال کے جواب میں کنور محمد دلشاد کا کہنا تھا کہ بعض ممالک میں کسی زائد نشست کو خالی کرنے والے سیاست دان کو الیکشن کا سرکاری خرچہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔
دفاعی تجزیہ نگار فاروق حمید کا کہنا ہے کہ ایک طرف ملک مالی بحرانی حالات کا شکار ہے تو دوسری طرف سیاسی امیدواروں کا بار بار الیکشن لڑکر سرکاری وسائل ضائع کرنا کوئی بہتر طرز عمل نہیں ہے اور اسی لیے اس حوالے سے قانون سازی کیا جانا چاہیے۔
ایک حلقے میں ضمنی الیکشن پر کتنا خرچہ آتا ہے؟
کنور محمد دلشاد کے مطابق حالیہ ضمنی الیکشن پر اٹھنے والے سرکاری اخراجات کا اندازہ اسی کروڑ روپے کے قریب لگایا جا رہا ہے۔ اس میں سٹیشنری، ٹرانسپورٹ، عملے کی تربیت اور الیکشن کے لیے عملے کو دیا جانے والا معاوضہ بھی شامل ہے۔ قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے ایک امیدوار عمر خان نے بتایا کہ قومی اسمبلی کی ایک سیٹ پر مختلف علاقوں میں مختلف خرچ آتا ہے۔ لیکن ان کے بقول قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں عام طور پر پانچ سے دس کروڑ روپے خرچ آتا ہے۔ ساڑھے تین سو پولنگ سٹیشنوں والے حلقے میں کم از کم ساڑھے تین سو کیمپ لگانا ہوتے ہیں۔ الیکشن کے روز ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ حلقے کی ہر یونین کونسل میں الیکشن دفاتر کھولنا پڑتے ہیں اور وہاں بھی چائے اور کھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ ایڈورٹائزنگ کے اخراجات بھی بہت بڑھ گئے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بھی ٹکٹ کی فیس مانگتی ہیں۔
قبل ازوقت انتخابات: عمران خان کی پیشن گوئی زیر بحث
عمر خان نے بتایا، ''ماضی قریب میں لاہور کے ایک انتخابی حلقے میں دو پراپرٹی والے آمنے سامنے تھے۔ وہاں تاثر یہ ہے کہ صرف اس ایک حلقے میں دونوں امیدواروں نے اپنی اپنی جیب سے پندرہ سے بیس کروڑ روپے فی کس خرچ کیے تھے۔‘‘
نا قابل رشک مثالیں
کنور محمد دلشاد بتاتے ہیں کہ چوہدری نثار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو طویل عرصے تک حلف اٹھانے ہی نہیں آئے۔ طویل عرصے بعد انہوں نے حلف اٹھایا تو اس کے بعد بھی کبھی وہ اسمبلی اجلاسوں میں نظر نہیں آئے۔ اسی طرح اسحاق ڈار بھی سینیٹر منتخب ہو کر لندن چلے گئے تھے۔ ان کو واپس لانے کے لیے ایک آرڈیننس بھی لایا گیا، لیکن وہ بیماری کی آڑ میں واپس آنے کے بجائے لندن ہائی کمیشن میں یا ویڈیو کانفرنس کے ذریعے حلف اٹھانے پر ہی مصر رہے تھے۔ بعدازاں وہ آرڈیننس بھی اپنی مدت پوری ہونے کے بعد غیر مؤثر ہو گیا تھا۔ اہم بات یہ کہ اب اپنے انتخاب کی پارلیمانی مدت تقریباﹰ ختم ہونے کے قریب انہوں نے پاکستان واپسی پر حلف اٹھایا ہے۔
پاکستان میں نظام احتساب کی شفافیت پر بحث میں نئی تیزی
کنور محمد دلشاد کے مطابق اسی طرح یہ بات بھی نامناسب ہے کہ عمران خان زیادہ سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑ کر پہلے جیتیں اور پھر ان نشستوں سے دستبردار ہو جائیں۔ خاص بات یہ ہے کہ جمہوری روایات کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
مسئلے کا حل کیا؟
سیاسیات کی استاد پروفیسر ڈاکٹر ریحانہ سعید ہاشمی کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا ایک حل تو لسٹ سسٹم رائج کرنے میں ہے۔ ان کی رائے میں ایک بار الیکشن ہو جانے کی صورت میں ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے امیدواروں کے نتائج کو ایک دو تین کی صورت میں جاری کیا جائے۔ پہلے نمبر پر آنے والے امیدوار کو اسمبلی میں جانا چاہیے اور کسی رکن اسمبلی کے مستعفی ہو جانے، انتقال کر جانے یا نااہل قرار دے دیے جانے کی صورت میں اسی حلقے میں دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کو بقیہ مدت کے لیے پارلیمان کی رکنیت کا موقع ملنا چاہیے۔
ڈاکٹر ریحانہ ہاشمی کے مطابق سیاستدانوں کو دو سے زائد انتخابی حلقوں سے انتخاب لڑنے کی اجازت بھی نہیں ہونا چاہیے اور اس امر کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات متعارف کرائی جانا چاہییں۔