کیا بھارت افغان امن مساعی میں کلیدی کردار ادا کرسکے گا؟
24 مارچ 2021افغانستان کے وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر نے بھارت کے تین روزہ دورے کے دوران اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر اور قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کے علاوہ دیگر اہم حکام سے ملاقات کی اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات میں ہونے والے تازہ ترین پیش رفت کا جائزہ لیا۔
افغان وزیر خارجہ حنیف اتمر نے بھارتی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت چاہتی ہے کہ بھارت امن مساعی میں زیادہ بڑا کردار ادا کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امن اور استحکام کے حوالے سے بھارت اس کا جائز حق رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اور بھارت دونوں ہی دہشت گردی سے متاثر رہے ہیں اور دونوں ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے خطرات کا مل کر مقابلہ کریں۔
حنیف اتمر کا کہنا تھا کہ جو لوگ خطرات پیدا کر رہے ہیں وہ صرف افغانستان کے لیے ہی نہیں بلکہ بھارت کے لیے بھی خطرات پیدا کر رہے ہیں۔ لہذا علاقائی اور بین الاقوامی اتفاق رائے پیدا کرنے میں بھارت کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
بھارت کا کلیدی کردار کیا ہوگا؟
بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی مودی حکومت کے سامنے یہ واضح نہیں ہے کہ بھارت افغانستان میں کس طرح زیادہ بڑا یا کلیدی کردار ادا کرے گا کیونکہ وسیع تر کردار ادا کرنا اپنے آپ میں بڑی پیچیدہ عمل ہے۔
اسٹریٹیجک امور کے ماہر اور ہارڈ نیوز میگزین کے چیف ایڈیٹر سنجے کپور نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ابھی بھارت کے سامنے خود ہی واضح نہیں ہے کہ 'وسیع تر کردار‘ کیا ہوسکتا ہے۔ ہمیں تو ابھی اپنے تقریباً دو ارب ڈالر کی اس سرمایہ کاری کو ہی بچانے کا بڑا مسئلہ درپیش ہے جو ہم نے افغانستان میں خرچ کیے ہیں۔ اگر وہاں دوستانہ حکومت نہیں رہی تو ہم اسے کیسے بچا پائیں گے یہ ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔"
سنجے کپور کا کہنا تھا، ” اگر بھارت افغانستان میں بڑا کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے اور بھی ذمہ داری لینا ہوگی۔ امریکا بارہا یہ کہتا رہا ہے کہ بھارت بھی اپنی فوجیں وہاں بھیجے۔ واجپئی حکومت اور من موہن سنگھ حکومت کے دوران بھی امریکا نے یہ تجویز پیش کی تھی لیکن ان دونوں حکومتوں نے بڑی حکمت کے ساتھ اسے ٹال دیا تھا۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے حالیہ دورے کے دوران بھی غالباً یہ تجویز پھر پیش کی گئی تھی۔
طالبان کے ساتھ کیا رویہ رہے گا؟
محمد حنیف اتمر کا کہنا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعہ اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کررہی ہے کہ ملک بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بننے نہ پائے اور وہ بھارت اور مغرب کو نشانہ نہ بنا سکیں۔
افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے طالبان کے حوالے سے بھارت کے اپروچ کے سلسلے میں بھارتی رہنماؤں کے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔ ان کے بقول،” یہ فیصلہ ہم نے کلی طور پر بھارت پر چھوڑ دیا ہے۔ دنیا کو محفوظ بنانے کی بہترین حکمت عملی یہ ہوگی کہ طالبان کو علاقائی اور بین الاقوامی دہشت گردوں سے الگ تھلگ کردیا جائے۔"
جب ڈی ڈبلیو نے اسٹریٹیجک امور کے ماہر سنجے کپور سے پوچھا کہ طالبان کے حوالے سے بھارت کا کیا نظریہ ہوگا تو انہوں نے کہا”بھارت پر کافی دباو رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان سے بات چیت کرے۔ جب روس نے ماسکو مذاکرات بلائی تھی تو بھارت بھی ایک مشاہد کے طور پر شریک ہوا تھا۔ کچھ غیر رسمی سطح پر بات چل رہی ہے لیکن بھارت نے آفیشیل سطح پر کوئی بات چیت کرنے کا وعدہ نہیں کیا ہے۔ کیونکہ بھارت کا موقف ہے کہ طالبان پاکستان کی شہ پر اور پاکستان سے مل کر کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کے نظریات بھی بھارت کے خلاف ہیں۔ گوکہ طالبا ن کے حامی کہتے ہیں کہ طالبان کا نظریہ بدل گیا ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان میں کچھ خاص تبدیلی آئی ہے۔"
پاکستان کو بھارت سے پریشانی کیوں ہے؟
سنجے کپور کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیام امن میں پاکستان بھی ایک اہم فریق ہے اور وہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں بننے والی حکومت پاکستان کی حامی رہے۔
سنجے کپور کا خیال تھا کہ افغانستان میں جب بھی بھارت کی سرگرمیاں بڑھتی ہیں تو پاکستان کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد ایک عرصے سے جلال آباد میں بھارتی قونصل خانے کو بند کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔
انہوں نے کہا، ” گذشتہ کئی ماہ سے بھارت نے جلال آباد میں اپنا قونصل خانہ بند کررکھا ہے، حالانکہ اس کی وجہ کورونا وائرس کی وبا بتائی گئی ہے لیکن دراصل پاکستان کا مطالبہ ایک طرح سے مان لیا گیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے جو حتمی معاہدہ ہو اس میں بھارت کے قونصل خانے کو بند کرنے کی بات بھی شامل ہو۔"
افغان وزیر خارجہ حنیف اتمر نے بتایا کہ یکم اپریل کو ترکی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والی میٹنگ میں تین امور یعنی مستقل اور جامع جنگ بندی، افغان عوام کے لیے قابل قبول سیاسی حل اور معاہدے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی ضمانت پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔