ہلاکتوں کی تعداد 10 ہزار ہو سکتی ہے، جاپانی حکام
13 مارچ 2011جاپان سے موصولہ خبروں کے مطابق اب ایک دوسرے ایٹمی ری ایکٹر میں بھی کولنگ سسٹم نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف جمعہ کے زلزلے اور اُس کے نتیجے میں ہولناک سونامی لہروں کی تباہ کاریوں کے بعد ممکنہ طور پر زندہ بچ جانے والوں کی تلاش جاری ہے، وہیں زلزلے کے مزید جھٹکوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
جاپانی سرکاری نشریاتی ادارے NHK نے بتایا ہے کہ دَس دَس میٹر بلند سمندری لہروں نے پورے کے پورے قصبوں اور دیہات کو نیست و نابود کر دیا ہے، اِس لیے مرنے والوں کی تعداد 10 ہزار سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب پولیس حکام نے بھی اتوار کو بتایا کہ صرف میاگی کے ایک علاقے میں ہی ہلاکتیں یقینی طور پر دس ہزار سے تجاوز کر جائیں گی۔
ٹوکیو سے شمال کی جانب 240 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع فوکوشیما میں ری ایکٹر نمبر وَن میں دھماکے اور تابکاری شعاعوں کے اخراج کے بعد ہفتہ کو ہزارہا افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اِس ایٹمی بجلی گھر میں فیول راڈز پگھل گئے ہیں اور ری ایکٹر کا جزوی ’مَیلٹ ڈاؤن‘ وقع پذیر ہو چکا ہے۔ ری ایکٹر نمبر تین میں بھی ایسی کسی صورتحال کو پیدا ہونے سے روکنے کے لیے انجینئر سمندری پانی پمپ کر کے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ری ایکٹر میں بھی دھماکے کا خطرہ تو ہے تاہم ری ایکٹر کے مرکزی کنٹینر کو نقصان پہنچنے کا امکان کم بتایا جاتا ہے۔
کمبلوں میں لپٹے اور ہیٹرز کے آس پاس بیٹھے ہزارہا جاپانی شہریوں نے کل دوسری رات ہنگامی رہائش گاہوں میں بسر کی۔ اِس زلزلے کے نتیجے میں میاگی کے علاقے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے، جس کا ساحلی شہر سینڈائی شدید متاثر ہوا ہے۔ اِس کے ایک اور شدید متاثرہ ساحلی شہر رکوزینٹاکاٹا میں ایک ہزار افراد نے ایک پہاڑی پر واقع اسکول میں پناہ لے رکھی ہے۔
کیوڈو نیوز ایجنسی نے، جس نے پہلے مرنے اور لاپتہ ہونے والوں کی امکانی تعداد دو ہزار بتائی تھی، اب یہ کہا ہے کہ ایک شہر کی تقریباً نصف آبادی یعنی تقریباً دَس ہزار افراد سے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: ندیم گِل