ہمارے معاشرے کی ’حلال خود کشیاں‘
22 جون 2020سوشانت سنگھ راجپوت کے حق میں لاہور کے کچھ متوالوں نے پیٹیشنز بھی سائن کیں۔ یہ سب دیکھ کر ایک طرف تسلی ہوئی کہ چلو معاشرے میں ابھی انسانیت کی کچھ رمق باقی ہے۔ لیکن پھر اچانک اپنے اردگرد پھیلی ایسی لاشیں نظر آنا شروع ہو گئیں جن کی موت ہمارے معاشرے کے غیرت کے تاج کا حسن دوبالا کر دیتی ہیں۔ وہ بیٹیاں جن کو گھر سے شادی کا سرخ جوڑا پہنا کر رخصت کرتے وقت یہ کہا جاتا ہے کہ ڈولی پر جا رہی ہو تو جنازے میں واپس آنا۔ اب اس ایک جملے کے عوض اس دھرتی کی کتنی ہیریں اپنی جان کی بازی ہاری ہیں، اس کا شمار مشکل ہے۔
کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایک بار شادی ہو جانے کے بعد عورت کا طلاق یافتہ ہونا پورے خاندان کے لیے ذلت کی علامت بن جاتا ہے۔ اس صورت میں والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ چاہے حالات کیسے بھی ہوں بیٹی نبھاتی رہے،گھر میں مار پیٹ ہو یا زہریلا ماحول، گھر کو جوڑے رکھنے کی اولین ذمہ داری عورت کے نازک کاندھوں پر ڈالی جاتی ہے۔
سن دو ہزار میں پاک پتن سے ایک تیرہ سالہ بچی اغوا ہو کر اجتماعی زیادتی کا شکار ہوتی ہے اور جب کیس عدالت میں پیش ہوتا ہے تو ملزمان میں سے ایک رجوع کی درخواست کر کے کہتا ہے کہ چوں کہ ہمارا نکاح ہو چکا ہے تو اغوا اور زیادتی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لڑکی کے والدین کے ساتھ صلح نامے کے بعد لڑکی کو واپس اسی ملزم جوکہ اس کا شوہر ہے ، بھیج دیا جاتا ہے اور وہ اسی ماحول میں رہنے پر مجبور ہوتی ہے۔ جو طلاق کا کیس عورت کی طرف سے دائر کیا جائے اول تو اس کی شنوائی بہت مشکل ہوتی ہے کیونکہ اپنا خاندان ہی تعاون سے انکاری ہوتا ہے۔کیس کر بھی دیا جائے تو رجوع اور اس طرح کے دیگر عوامل کی وجہ سے سالہا سال تعطل کا شکار رہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
خدارا ’بیچ دو‘ کے نعرے کو ترک کر دیں!
کورونا وائرس ہونے کے بعد میرے شب و روز کیسے گزر رہے ہیں؟
جون دو ہزار اٹھارہ میں سوشل میڈیا پر جسٹس فار صبا کا ٹرینڈ وائرل ہوتا ہے، جہاں حیدر آباد کی لڑکی دن رات اپنے سسرال والوں کے تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ والدین کے پاس تشدد اور نیلوں سے بھرے وجود کیساتھ آتی ہے تو ماں باپ کہتے ہیں کہ ''بیٹی تم طلاق لے لو گی تو لوگ کیا کہیں گے؟ ‘‘ وہ چار بچوں کی ماں واپس اسی ماحول میں جاتی ہے اور گھر کے اس ماحول کی وجہ سے بچوں کی شخصیت بھی شدید متاثر ہوتی رہتی ہے۔ کچھ دن بعد صبا کے والدین کو کال آتی ہے کہ آپ کی بیٹی نے دوائی کھا کر خودکشی کر لی ہے۔
دل گرفتہ والدین گھر پہنچتے ہیں تو اول تو لاش نہیں دکھائی جاتی اور جب منتیں کر کے دیکھتے ہیں تو میت کے کانوں سے خون رسنے کے نشان اور تشدد زدہ چہرہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ صبا نے والدین کی عزت اور سسرال والوں کے جبر کو خاموشی سے اپنی جان پر سہہ لیا ہے۔ صبا کے مرنے سے یہ سلسلہ تھما نہیں۔
ستمبر دو ہزار انیس میں سوشل میڈیا بلاگر اور بیوٹیشن اپنے لائیو سیشن کے دوران رو پڑتی ہیں اور اپنی جبری شادی، خاوند کی طرف سے گھر سے نکالے جانے کا احوال بیان کرتی ہے۔ ساتھ یہ بھی بتاتی ہے کہ اسے اپنی بیٹی سے بہت محبت ہے اور وہ مرنا نہیں چاہتی کیونکہ لائیو سیشن میں والدین کی طرف جانے کا مشورہ دیتا ہے تو بتاتی ہے کہ اس کے والد نے سختی سے منع کیا ہے کہ ''واپسی کے دروازے بند ہیں۔‘‘
ساتھ ہی آمنہ عاتک یہ بھی کہتیں ہیں کہ والد نے کہا ہے کہ ''تمہیں مینٹل ہاسپٹل داخل کروا دوں گا پر طلاق کا داغ ماتھے پر سجا کر گھر واپس مت آنا، تم ہمارے گلے میں اٹکی وہ زہریلی چھپکلی بن چکی ہو جسے ہم نہ اگل سکتے ہیں نہ نگل سکتے ہیں۔‘‘ اور دو دن بعد آمنہ عاتک کی خودکشی بھی اپنے والد کے حکم کی لاج رکھ لیتی ہے۔
ہمارا معاشرہ دوغلے پن کا اس شدت سے شکار ہو چکا ہے کہ ہم ان معاملات میں حرام موت ''خودکشی‘‘ تو قبول کر لیتے ہیں پر حلال فعل طلاق یا علیحدگی کے بارے میں سوچنے کو بھی کفر خیال کرتے ہیں اور اس سوچ کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بیٹی کے وجود، اس کی شادی اور جہیز کے معاملات کو شروع سے بوجھ جانا گیا ہے۔
ٹی وی پر انشورنس کمپنی کا کمرشل بھی چلے تو بیٹے کے سر پر گریجویشن کیپ اور ہاتھ میں ڈگری اور بیٹی کا مستقبل سرخ دوپٹہ دکھایا جاتا ہے اور یہ ریت صرف تب بدلے گی، جب ہم بیٹی کی تعلیم اور اس کے دوسرے بنیادی حقوق کو بھی بیٹوں جتنا اہم سمجھنا شروع کریں گے۔