ہنگری میں تارکین وطن کی غیر ضروری حراست
23 مارچ 2016ہنگری کی ہیلسنکی کمیٹی برائے مہاجرین کے سربراہ گابور جولائے کا کہنا ہے کہ ہنگری کی جانب سے تارکین وطن کو غیر ضروری طور پر حراست میں لیا جانا ایک عمومی عمل بن چکا ہے اور تارکین وطن کے لیے بنائے گئے استقبالیہ مراکز میں ان کے ساتھ قیدیوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
درجنوں پاکستانی تارکین وطن یونان سے ترکی ملک بدر
رضاکارانہ طور پر واپس جاؤ، بائیس سو یورو ملیں گے
جولائے کا مزید کہنا تھا، ’’ہنگری کا شمار یورپی یونین کے ان چند رکن ممالک میں ہوتا ہے جہاں آنے والے نئے تارکین وطن کو حراست میں لیا جاتا ہے۔‘‘ گابور جولائے کے مطابق یکم فروری سے اب تک 443 پناہ گزینوں کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے چالیس فیصد کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے ہے۔
ہیلسنکی کمیٹی اور تارکین وطن کو نفسیاتی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے مشاورت فراہم والی کورڈیلیا فاؤنڈیشن کی جانب سے پیش کردہ مشترکہ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ پہلے سے تشدد کے شکار اور صدمہ زدہ پناہ گزینوں کو فراہم کردہ قانونی تحفظ غیر موثر ہے جس کی وجہ سے قید کے دوران ان کی نفسیاتی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ حراستی مراکز میں تعینات عملے عموماﹰ کم تربیت یافتہ ہوتا ہے اور ان پر قیدیوں سے ناروا سلوک رکھنے کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔
کورڈیلیا فاؤنڈیشن کی میڈیکل ڈائریکٹر اور ماہر نفسیات لِلا ہارڈی کا کہنا ہے کہ نفسیاتی معالجین کو علاج کرنے کے لیے مریضوں کا اعتماد حاصل کرنا پڑتا ہے کیوں کہ تشدد کی وجہ سے صدمہ زدہ تارکین وطن اپنی نفسیاتی صورت حال کی وجہ سے کسی دوسرے پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
ماہرین نے ہنگری کے حکام کی جانب سے نفسیاتی معالجوں کو زیر حراست پناہ گزینوں تک رسائی کی اجازت دینے کا خیر مقدم کیا ہے تاہم انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ پناہ کے متلاشی افراد کو دوران قید مترجم فراہم کرنے کے علاوہ انہیں انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے اہل خانہ سے بات چیت کرنے کی اجازت بھی دی جائے۔
رپورٹ مرتب کرنے والے دونوں اداروں نے ہنگری کے علاوہ بلغاریہ کے حراستی مراکز کا بھی جائزہ لیا ہے۔ لکھا گیا ہے کہ بلغاریہ کی حدود میں داخل ہونے والے پناہ کے متلاشی افراد کو اٹھارہ ماہ تک قید میں رکھا جاتا ہے۔