یمن: اقوام متحدہ کا متحارب گروپوں سے مذاکرات کرنے پر زور
16 نومبر 2021اقوام متحدہ کے ایک نگراں مشن نے یمن کے متحارب فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ حدیدہ کے مسئلے پر از سر نو بات چیت شروع کریں۔ سعودی عرب کے زیر قیادت اتحاد نے بندرگاہی شہر کے جنوب میں ان علاقوں پر فضائی حملے شروع کیے ہیں جہاں اتحادی افواج کے انخلا کے بعد حوثی باغیوں نے اپنے پیر جما لیے ہیں۔
اقوام متحدہ نے یہ مطالبہ 15 نومبر پیر کے روز کیا جبکہ اتحادی فورسز نے علاقے پر بمباری 14 نومبر اتوار کو شروع کی تھی۔ اتحادی افواج کے نکلنے کے بعد علاقے میں حوثی جنگجو داخل ہو گئے جس کا اب محاصرہ کر کے بمباری کی جار ہی ہے۔
سن 2018 کے اواخر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں حدیدہ شہر میں جنگ بندی سے متعلق یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پا یا تھا۔ اس کے تحت فریقین کی جانب سے دوبارہ فورسز کو تعینات کرنا تھا تاہم اس پر کبھی عمل نہیں ہوا۔ اس کے بعد سے اقوام متحدہ نے اس علاقے سے متعلق پہلی بار بات چیت شروع کرنے کی بات کہی ہے۔
سعودی عرب کے زیر قیادت اتحاد کے ترجمان جنرل ترکی المالکی نے الحدیدہ کے آس پاس سے اچانک اتحادی افواج کے انخلا کے بارے میں پہلی بار وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے محاذوں پر حمایت اور اتحاد کے ''مستقبل کے منصوبوں '' کے مطابق وہاں از سر نو تعیناتی کا حکم دیا گیا تھا۔
تاہم الحدیدہ سے متعلق معاہدے کی نگرانی کرنے والے اقوام متحدہ کے مشن اور یمن کی حکومت کا کہنا ہے کہ انہیں اس انخلا سے متعلق پیشگی کوئی اطلاع نہیں تھی جبکہ بعض دوسرے فریقوں نے بھی الحدیدہ سے انخلا کے فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔
اقوام متحدہ کے مشن نے پیر کے روز کہا کہ الحدیدہ شہر، الدرہیمی، بیت الفقیہ اور الطحیت کے کچھ حصوں سے مشترکہ یمنی افواج کا انخلا اور اس کے نتیجے میں علاقے پر حوثیوں کے قبضے سے جنگ کے محاذوں میں ایک بڑی تبدیلی آ گئی ہے اور اسی لیے تمام فریقوں کے درمیان نئی بات چیت ناگزیر ہو چکی ہے۔
اس سے قبل اتحادی فورسز نے کہا تھا کہ اس نے، ''اسٹاک ہوم معاہدے کے تحت آنے والے علاقوں کے باہر'' 11 فضائی حملے کیے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اتوار کے روز الفضاء میں لڑائی کے بعد پیر کو بھی الحدیدہ شہر کے جنوب میں واقع ضلع حیس میں بھی حوثی جنگجوؤں اور اتحادی افواج کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔
نئے علاقوں میں اس تازہ لڑائی سے چھ ہزار بھی زیادہ مزید افراد کے بے گھر ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یمن میں گزشتہ پانچ برسوں سے جنگ جاری ہے جہاں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی بین الاقومی سطح پر تسلیم شدہ یمنی حکومت سے بر سر پیکار ہیں۔ سعودی اور علاقے کے دیگر اس کے اتحادی بھی اس جنگ میں حکومت کے حامی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق یمن اس وقت دنیا کے بدترین انسانی بحران سے دو چار ہے جہاں تقریبا ًدو کروڑ لوگ، یعنی ملک کی ایک تہائی آبادی، کو ہر طرح کی امداد کی سخت ضرورت ہے۔ اس صورت حال سے بچے شدید طور پر متاثر ہیں اور مجموعی طور پر 11 ملین افراد انسانی امداد پر منحصر ہیں۔ یعنی تقریبا ًہر پانچ میں چار یمنی بچوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
یونیسیف کے مطابق اس کے علاوہ تقریبا ًچار لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ تنظیم کے ترجمان جیمز ایلڈ رکا کہنا ہے، '' وہ بھوک سے اس لیے مر رہے ہیں کیونکہ بڑوں نے جنگ چھیڑ رکھی ہے جس میں بچوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔''
یمن میں اس خانہ جنگی کے سبب تقریبا ًبیس لاکھ بچے اب اسکول جانے سے بھی قاصر ہیں جبکہ تشدد کی وجہ سے تقریباً 17 لاکھ بچے اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہی بے گھر ہو چکے ہیں۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)