یمن میں دس ہزار بچے ہلاک یا معذور ہو چکے ہیں
20 اکتوبر 2021بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے 19 اکتوبر منگل کے روز کہا کہ جنگ زدہ ملک یمن میں 10 ہزار سے بھی زیادہ بچے ہلاک یا پھر زخمی ہو چکے ہیں۔ ادارے کے مطابق یمن ہر روز ہلاک یا زخمی ہونے والے چار بچوں کی تعداد کے ''شرمناک سنگ میل'' تک پہنچ گیا ہے۔
یمن میں گزشتہ پانچ برسوں سے جنگ جاری ہے جہاں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی بین الاقومی سطح پر تسلیم شدہ یمنی حکومت سے بر سر پیکار ہیں۔ سعودی اور علاقے کے دیگر اس کے اتحادی بھی اس جنگ میں حکومت کے حامی ہیں۔
یونیسیف کے ترجمان جمیز ایلڈر کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے کے اندازوں کے مطابق یمن میں اب تک دس ہزار سے بھی زیادہ بچے ہلاک ہو چکے ہیں، تاہم حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان تازہ اعداد و شمار کے مطابق سن 2015 میں سعودی اتحاد نے جب سے اس جنگ میں مداخلت کی ہے اس وقت سے ہر روز تقریبا ًچار بچے ہلاک یا پھر زخمی ہوئے ہیں۔
یونیسیف نے اسے ایک، ''شرمناک سنگ میل'' سے تعبیر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق مارچ سن 2015 سے رواں برس 30 ستمبر تک یمن کی اس لڑائی میں تین ہزار 455 بچے ہلاک ہوئے جبکہ اسی دوران چھ ہزار 600 بچے زخمی بھی ہوئے۔
دنیا کا بدترین انسانی بحران
جنگ کے نتیجے میں یمن کے بے شمار بچے بالواسطہ طور پر مہلک طریقوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یمن کو فی الوقت طویل تنازعات، معاشی تباہی، سماجی ٹوٹ پھوٹ اور منتشر صحت خدمات کی مشترکہ پریشانیوں کی شدید قسم کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق یمن اس وقت دنیا کے بدترین انسانی بحران سے دو چار ہے جہاں تقریبا ًدو کروڑ لوگ، یعنی ملک کی ایک تہائی آبادی، کو ہر طرح کی امداد کی سخت ضرورت ہے۔ اس صورت حال سے بچے شدید طور پر متاثر ہیں اور مجموعی طور پر 11 ملین افرادانسانی امداد پر منحصر ہیں۔ یعنی تقریبا ًہر پانچ میں چار یمنی بچوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
یونیسیف کے مطابق اس کے علاوہ تقریبا ًچار لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ تنظیم کے ترجمان جیمز ایلڈ رکا کہنا ہے، '' وہ بھوک سے اس لیے مر رہے ہیں کیونکہ بڑوں نے جنگ چھیڑ رکھی ہے جس میں بچوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔''
یمن میں اس خانہ جنگی کے سبب تقریبا ًبیس لاکھ بچے اب اسکول جانے سے بھی قاصر ہیں جبکہ تشدد کی وجہ سے تقریباً 17 لاکھ بچے اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہی بے گھر ہو چکے ہیں۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے پی)