یمنی جنگ میں شريک ممالک کے لیے جرمن اسلحے کی فراہمی معطل
20 جنوری 2018جرمن حکومت نے فوری طور پر ایسے ملکوں کو ہتھیاروں کی فروخت روک دی ہے، جو یمن کی جنگ میں شریک ہیں۔ برلن حکومت کے اس فیصلے کو خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی قرار دیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق يہ جرمنی میں نئی حکومتی کے قيام کے ليے مذاکراتی عمل کا نتيجہ بھی ہو سکتا ہے۔
یمنی خانہ جنگی: سعودی عرب کے الزامات، ایران نے مسترد کر دیے
بچوں کو جنگ میں بھیجیں، یمنی باغی حکومت کے وزیر کا مشورہ
یمن میں ’ظلم و ستم‘ کی چھان بین اقوام متحدہ کرے، رعد الحسین
وفاقی حکومت کے ترجمان اشٹیفان زائبرٹ نے بتایا کہ جرمنی کی فیڈرل سکیورٹی کونسل نے یمنی جنگ میں شریک ممالک کو اسلحے کی فروخت کی مزید اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ فیڈرل سکیورٹی کونسل جرمنی کا اعلیٰ ترین حکومتی ادارہ ہے جو مختلف ممالک کو اسلحے کی فروخت سے متعلق ڈیلوں کی حتمی منظوری دیتا ہے۔
یمن کی جنگ میں سعودی عرب کی قیادت میں ایک عسکری اتحاد قائم ہے، جس میں اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، کویت، مراکش، سوڈان اور سینیگال شامل ہیں۔ حوثی باغیوں کے خلاف قائم اس اتحاد کے جنگی طیارے یمنی علاقوں میں اہداف کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خلیجی ریاستیں سعودی عرب کے ساتھ اس جنگ میں پوری طرح شریک خیال کی جاتی ہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، اُن دس ملکوں میں شامل ہیں، جنہوں نے سن 2016 میں سب سے زیادہ جرمن اسلحے کی خریداری کی تھی۔ اُدھر سعودی عرب کے ایک سینیئر اہلکار نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ سردست ریاض حکومت جرمنی سے مزید اسلحے کی خریداری میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ جرمن چانسلر انگيلا ميرکل رواں برس اپریل میں سعودی عرب کا دورہ بھی کرنے والی ہیں۔
دوسری جانب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردن کو جرمن حکومت کی جانب سے مالی اور عسکری امداد بدستور جاری رہنے کی توقع ہے۔ اردن بھی یمن کی جنگ میں سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد میں شامل ہے۔ حال ہی میں جرمن وزیر دفاع اُروزلا فان ڈیئر لائن نے اردن کے ساتھ 130 ملین ڈالر کی عسکری ڈیل طے کرنے کا بتایا تھا۔ اس ڈیل کے تحت برلن حکومت اردن کو سرحدی نگرانی کے لیے بڑی فوجی گاڑیاں اور تربیتی ہوائی جہاز مہیا کرے گی۔