1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمنی صدر کو استعفے پر سعودی عرب نے مجبور کیا، امریکی اخبار

18 اپریل 2022

امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کے مطابق خانہ جنگی کے شکار ملک یمن کے صدر منصور ہادی کو سعودی عرب نے مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ اخبار کے مطابق ہادی اب ریاض میں اپنے گھر پر نظر بند ہیں اور ان کے رابطے محدود کیے جا چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4A3V2
یمنی صدر منصور ہادی سات اپریل کو مستعفی ہو گئے تھےتصویر: YEMEN TV/AFP via Getty Images

واشنگٹن سے پیر اٹھارہ اپریل کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق وال سٹریٹ جرنل نے اپنی اتوار کی اشاعت میں انکشاف کیا کہ گزشتہ کئی برسوں سے خانہ جنگی کے شکار اور انتہائی غریب عرب ملک یمن کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ صدر عبد ربو منصور ہادی نے سات اپریل کو اپنا جو استعفیٰ دیا تھا، اس کی وجہ سعودی عرب کے حکمرانوں کی طرف سے ڈالا جانے والا دباؤ تھا۔

 سعودی زیر قیادت اتحاد کا یمن میں فوجی کارروائی روکنے کا فیصلہ

یمن کی خانہ جنگی میں ان دنوں ایک ایسا وقفہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جو پچھلے کئی برسوں سے بہت ہی کم دیکھنے میں آیا تھا۔ ان حالات میں صدر منصور ہادی نے گیارہ روز قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے اپنے اختیارات ایک نئی یمنی لیڈرشپ کونسل کے سپرد کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

ہادی کو ان کا تحریری حکم نامہ سعودی ولی عہد نے ہاتھ میں تھمایا

امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل نے نام لیے بغیر انتہائی قابل اعتماد سعودی اور یمنی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ صدر منصور ہادی نے اپنے استعفے سے قبل جو صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا، وہ تحریری شکل میں انہیں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دیا تھا۔

Saoudi Arabien Prinz Mohammed bin Salman Al Saud
صدر ہادی نے استعفے سے قبل جو صدارتی حکم نامہ جاری کیا، وہ مبینہ طور پر انہیں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ہاتھ میں تھمایا تھاتصویر: BARNI Cristiano/ATP photo agency/picture alliance

اسی صدارتی حکم نامے میں ہادی نے اپنے اختیارات ایک ایسی نئی لیڈرشپ کونسل کے حوالے کرنے کا اعلان کیا تھا، جو یمن کے مختلف سیاسی گروپوں کے آٹھ نمائندوں پر مشتمل ہے۔

حوثی باغیوں کے حملے میں سعودی تیل کی تنصیبات کو نقصان

ذرائع کے مطابق چند سعودی حکام نے یہ دھمکی بھی دے دی تھی کہ اگر صدر منصوری ہادی نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے سے انکار کیا، تو وہ ان کی کرپشن کے ثبوت عام کر دیں گے۔ اس پر عبد ربو منصور ہادی کے پاس مبینہ طور پر استعفیٰ دے دینے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔

ہادی کی ریاض میں گھر پر نظر بندی

وال سٹریٹ جرنل کے مطابق سعودی اور یمنی حکام نے اس امر کی بھی مبینہ طور پر تصدیق کر دی ہے کہ استعفے کے بعد سے منصور ہادی سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اپنے گھر پر نظر بند ہیں۔ جریدے کے مطابق ان کی زندگی اب ان کی رہائش گاہ تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے اور اسے گھر پر نظر بندی کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔

دنیا کی غریب ترین قوم ’یمنی‘ کو دنیا کی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں، ریڈ کراس

ایک سعودی اہلکار نے یہ تصدیق بھی کی کہ منصور ہادی کو ٹیلی فون تک رسائی بھی حاصل نہیں اور ان کے بیرونی دنیا کے ساتھ رابطے بھی انتہائی محدود کیے جا چکے ہیں۔ ایک دوسرے سعودی اہلکار نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ ہادی کے مستعفی ہونے کی اس لیے بھی حوصلہ افزائی کی گئی کہ یمن کے مختلف جنگی فریق ملکی رہنما کے طور پر صدر منصور ہادی کی قیادت پر اعتماد کھو چکے تھے۔

استعفے کے بعد سعودی ردعمل

سرکاری طور پر سعودی عرب نے صدر منصور ہادی کے مستعفی ہو جانے کا خیر مقدم کیا تھا اور ساتھ ہی کئی برسوں کی خانہ جنگی سے تباہ حال یمن کے لیے تین بلین ڈالر کی امدا دکا اعلان بھی کر دیا تھا۔

یمنی جنگ متحدہ عرب امارات تک کیسے پہنچی؟

منصور ہادی یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے سربراہ تھے اور ان کی قیادت میں ہی، سعودی سربراہی میں قائم عسکری اتحاد کی مدد سے، یمنی حکومت کی فورسز کئی سال تک ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف لڑتی رہی تھیں۔ سعودی عرب اپنی سربراہی میں قائم عسکری اتحاد کی صورت میں منصور ہادی کی حکومت کی حمایت میں یمن کی خانہ جنگی میں 2015ء میں شامل ہوا تھا۔

منصور ہادی یمن کے دارالحکومت صنعاء سمیت ملک کے وسیع تر علاقوں پر ایران نواز حوثی باغیوں کے قبضے کے بعد فرار ہو کر سعودی عرب چلے گئے تھے اور تب سے اب تک وہیں مقیم ہیں۔

م م / ر ب (اے ایف پی، ڈی پی اے)