یورو زون بحران: امریکہ آئی ایم ایف کے اضافی کردار کے خلاف
15 اکتوبر 2011امریکہ کی جانب سے یورو زون کے بحران کے لیے آئی ایم ایف کو اضافی کردار دینے کی تجویز کو رد کرنے کے بعد اس بحران کو حل کرنے کی مرکزی ذمہ داری یورپ پر ہی آ پڑی ہے۔ یہ تجویز پیرس میں ہونے والی جی بیس ممالک کے وزرائے خزانہ کی کانفرنس کے دوران پیش کی گئی تھی جسے ترقی پذیر ممالک کی بھی حمایت حاصل تھی۔
کانفرنس کا دوسرا دور آج ہفتے کے روز شروع ہو رہا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس دور میں یورو زون کے مالیاتی بحران کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہوگی۔ جی ٹوئنٹی سربراہی کانفرنس اگلے ماہ کی تین اور چار تاریخ کو فرانس ہی میں منعقد کی جائے گی جس میں اس حوالے سے مزید اقدامات کیے جانے کی توقع ہے۔
ذرائع کے مطابق بعض ممالک نے آئی ایم ایف کے فنڈز میں مزید تین سو پچاس بلین ڈالر شامل کرنے کی تجویز پیش کی تھی جسے امریکی وزیر خزانہ ٹموتھی گائتھنر کے علاوہ کینیڈا اور آسٹریلیا کے وزرائے خزانہ نے بھی مسترد کر دیا۔ آئی ایم ایف کے مرکزی شیئر ہولڈرز امریکہ، جاپان، جرمنی اور چین کا مؤقف ہے کہ آئی ایم ایف کے تین سو اسی بلین ڈالر کے فنڈ اس بحران کے حل کے لیے کافی ہیں۔
جرمن وزیر خزانہ وولفگانگ شوئبلے نے اعتراف کیا کہ یورو زون کا مالیاتی بحران یورپ ہی کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یورپی یونین کے رہنما 23 اکتوبر کو ہونے والے اپنے اجلاس میں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے اہم فیصلے کر پائیں گے۔
یورو زون کا بحران سنگین تر شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں اسٹینڈرڈ اینڈ پوئرز نے اسپین کی کریڈٹ ریٹنگ کم کر دی تھی۔ یونان اور پرتگال اقتصادی دیوالیہ پن کے قریب ہیں۔ جرمنی اور فرانس کی کوشش ہے کہ اس بحران پر جلد قابو پا لیا جائے تاکہ اسے دیگر ممالک تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔
دوسری جانب امریکی صدر باراک اوباما نے گزشتہ روز جمعے کو ٹیلی فون پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ بات چیت کی، جس میں یورو زون کے مالی بحران سے پیدا ہونے والی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس بات چیت میں دونوں رہنماؤں نے اگلے مہینے فرانس میں ہونے والی جی ٹوئنٹی کی سربراہی کانفرنس کی تیاریوں سے متعلق مشورے کیے۔ اس دوران یہ بھی طے پایا کہ بحرانی حالات کے پیش نظر اس کانفرنس سے پہلے واشنگٹن اور برلن دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل قریبی رابطے میں رہیں گے۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک