یورو زون بحران: لزبن ٹریٹی پر نظرثانی کی پکار
17 نومبر 2011یورپی یونین میں بنیادی اہمیت کے حامل لزبن ٹریٹی میں نظرثانی کی بات کرنے والوں میں جرمنی اور فرانس پیش پیش ہیں۔ یونین کے بعض حکام کا خیال ہے کہ لز بن ٹریٹی میں کسی بھی تبدیلی کی بحث اور پھر حتمی منظوری کے لیے یونین کی رکن ریاستوں کو ریفرنڈم کے طویل عمل سے گزرنا پڑے گا۔ لزبن ٹریٹی پر نظرثانی کی مناسبت سے برطانیہ اور آئر لینڈ کے علاوہ کئی دوسرے ملک ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا مؤقف ہے کہ لزبن ٹریٹی میں توسیع کی پالیسی کو اگر جاری رکھنا ہے تو پھر یورو زون میں وسیع تر استحکام کی غرض سے ترامیم اب وقت کی ضرورت ہیں۔ میرکل کئی سخت پابندیوں کو متعارف کروانے کی وکالت کر رہی ہیں۔ ان کے خیال میں بجٹ خسارے کے اہداف کو نظر انداز کرنے والے ممالک کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا چاہیے۔ میرکل کے نزدیک یہ ترمیم ایک نئے یورپ کے لیے سنگ میل ثابت ہوگی۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران میرکل کا یہ بھی کہنا تھا کہ لز بن ٹریٹی میں ترامیم اصل میں یورپی یونین کی بقاء کا مسئلہ ہے۔
ایک اور اہم یورپی اقتصادی قوت فرانس بھی جرمن تجاویز کا حامی ہے۔ پیرس حکومت کا خیال ہے کہ لزبن ٹریٹی میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ صدر سارکوزی حکومت تبدیلی کےحوالے سے برلن حکام سے بھی آگے جاتے ہوئے لز بن ٹریٹی کےکچھ بنیادی اصولوں میں تبدیلی کی خواہاں ہے۔ یوپی یونین کا ایگزیکٹو ادارہ یورپی کمیشن بھی لزبن ٹریٹی میں محدود تبدیلیوں کا حامی ضرور ہے لیکن وہ اس مناسبت سے محتاط بھی ہے۔
یورپی کمیشن کے صدر یوزے مانوئل بارروسو کا کہنا ہے کہ لز بن ٹریٹی پرکوئی بھی نظرثانی اصل میں یورو زون میں توسیع کے عمل کو گہرا کرنے کے برابر ہے اور اس سے یورپی یونین کو مزید توانائی حاصل ہو گی۔ بارروسو نے ان خیالات کا اظہار یورپی پارلیمنٹ سے بدھ کے روز خطاب کے دوران کیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ٹریٹی میں تبدیلی کے لیے وقت درکار ہے اور موجودہ بحران کا فوری حل اس میں پوشیدہ نہیں ہے۔
یورپی کونسل کے صدر ہیرمن فان رومپوئے کا رویہ اس بابت خاصا محتاط دکھائی دیتا ہے۔ رومپوئے ٹریٹی کی دستاویز میں تبدیلی کے بارے میں تشویش رکھتے ہیں اور اس مناسبت سے واضح اور شفاف نظریے کو انتہائی اہم خیال کرتے ہیں۔ یورپی کونسل کے صدر کی رائے ہے کہ پہلے مقاصد کا تعین ہونا ضروری ہے اور اس کے بعد ہی دستوری طریقے سے ٹریٹی میں محدود تبدیلیاں لائی جائیں۔ رومپوئے کے مطابق ٹریٹی میں ہر تبدیلی کی توثیق متفقہ طور پر تمام اقوام سے لازمی ہے۔ رومپوئے ان دنوں لزبن ٹریٹی میں تبدیلی کے امکانات کی مناسبت سے ایک رپورٹ بھی مرتب کر رہے ہیں اور وہ 9 دسمبر کی یورپی لیڈران کی سمٹ میں اسے پیش کریں گے۔ ان کی رپورٹ پر حتمی جائزہ رپورٹ اگلے سال مارچ یا جون میں متوقع ہے۔
کئی دوسری یورپی اقوام بھی لز بن ٹریٹی میں تبدیلی کی مناسبت سے مثبت احساس نہیں رکھتیں۔ برطانیہ کے نائب وزیر اعظم نِک کلیگ کا کہنا ہے کہ یورپ کو جب بھی بحران کا سامنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے بنیادی ٹریٹی میں تبدیلی کی بات شروع ہو جاتی ہے۔ یورپی یونین کا حامی فن لینڈ بھی تبدیلی کا حامی نہیں ہے۔ تبدیلی کے بعد توثیق کے عمل کے دوران یورپی یونین کی رکن ریاستیں چیک جمہوریہ اور سلوونیہ بھی مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔ اسی طرح آئر لینڈ، ہالینڈ اور سلوواکیہ بھی اپنی اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ