یورپ کو پاکستانی برآمدات پر ڈیوٹی کا محدود خاتمہ
7 اکتوبر 2010پاکستان کے لئے مالی امداد سے منسلک اس تجارتی فیصلے کے ذریعے یورپی یونین سیلابی تباہ کاریوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اسلام آباد کی مدد کرنا چاہتی ہے۔
یورپی یونین کی طرف سے خاص طرح کی پاکستانی مصنوعات پر درآمدی محصولات کی معطلی کا یہ یکطرفہ فیصلہ تین سال کے لئے کیا گیا ہے۔ اس کا اطلاق جن پاکستانی مصنوعات پر ہو گا، ان کا حجم یونین کی رکن ریاستوں کے لئے سالانہ پاکستانی برآمدات کا 27 فیصد بنتا ہے۔
برسلز میں جمعرات کو کئے گئے ایک اعلان کے مطابق پاکستانی برآمدات کے لئے درآمدی ڈیوٹی کے تین سال کے لئے خاتمے کے اس فیصلے سے یونین کے علاقے میں پاکستان سے آنے والی مصنوعات میں اضافہ ہو جائے گا۔ ان مصنوعات میں زیادہ تر ٹیکسٹائل مصنوعات شامل ہیں۔
یورپی یونین کے اندازوں کے مطابق اگلے تین سال کے دوران یونین کے علاقے میں پاکستانی برآمدات کی مالیت میں سالانہ اضافہ قریب 100 ملین یورو ہو گا۔ یونین کے تجارتی امور کے کمشنر Karel de Gucht نے کہا، برسلز کے اس غیر معمولی فیصلے کا مقصد یہ ہے کہ بد ترین سیلابی تباہ کاریوں کے بعد پاکستانی معیشت میں بحالی کا عمل تیز ہو جائے۔
اس یورپی کمشنر نے کہا کہ اس فیصلے میں یورپی یونین کی صنعتی اور تجارتی حساسیت کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، یورپی منڈیوں میں پاکستان کے حوالے سے تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ خدشہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ ترجیحی تجارتی سلوک اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں سستی پاکستانی برآمدات سے یورپی اداروں کو نقصان پہنچے گا۔
برسلز میں یورپی ذرائع کے بقول یورپی یونین کی ان تجارتی مراعات سے جتنی پاکستانی برآمدات کو فائدہ پہنچے گا، وہ اپنی مجموعی مالیت میں یونین کے علاقے میں پاکستانی برآمدات کی کل مالیت کا محض ایک چھوٹا سا حصہ بنتی ہیں۔ یونین کے رکن 27 ملکوں کو پاکستانی برآمدات کی سالانہ مالیت 15 بلین یورو یا 20.6 بلین ڈالر بنتی ہے۔
پاکستان کے لئے بالواسطہ امداد کا یہ پروگرام یورپی یونین کو برطانیہ نے تجویز کیا تھا۔ اسے منظوری کے لئے رکن ملکوں کو اور یورپی پارلیمان میں اگلے چند روز میں پیش کیا جائے گا۔
یورپی یونین میں اس بارے میں بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ پاکستان میں انتہا پسند تنظیمیں وہاں سیلاب کے باعث کئی ملین شہریوں کے بے گھر ہو جانے اور معاشی بد حالی کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: امجد علی