250511 EU Kernkraftwerke
27 مئی 2011اس مقصد کے ليے يکم جون سے ان بجلی گھروں کو کڑی آزمائشوں سے گزارا جائے گا۔ يہ تجربات بھی کيے جائيں گے کہ يہ ايٹمی بجلی گھر قدرتی آفات، زلزلوں، سيلاب يا اُن پر جہاز گرنے کی صورت ميں محفوظ رہ سکتے ہيں يا نہيں۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے يورپی يونين کے توانائی سے متعلقہ امور کے نگران کمشنرگُنٹراوئٹنگر رکن ممالک کی حکومتوں سے اس بارے ميں ايک عرصے سے بات چيت کر رہے ہيں کہ مجموعی طور پر ان 143 ايٹمی بجلی گھروں کے خطرات سے محفوظ ہونے کی آزمائش کے ليے کيا معيار مقرر کیے جائيں اور اُن معیارات کو پرکھنے کے لیے کیا حکمت عملی ترتیب دی جائے۔
يورپی يونين کے بہت سے ممالک نے اوئٹنگر کی تجاويز کو اپنے داخلی معاملات ميں مداخلت سمجھا اور اُنہيں بہت سخت قرار ديا۔ اب بات چيت کے نتيجے ميں جو سمجھوتہ سامنے آيا ہے، اوئٹنگر اُس سے مطمئن نظر آتے ہيں۔ اب يورپی يونين کے تمام 143 ايٹمی بجلی گھروں کی تفصيلی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
اس بارے میں اوئٹنگرنے کہا:’’اس سلسلے ميں دريائے رائن جيسے درياؤں ميں طغيانی سے پيدا ہونے والے خطرات کا جائزہ لينا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ بحر اوقيانوس ميں سونامی لہروں کے خطرات کا جائزہ۔ اسی طرح انتہائی سخت سردی اور گرمی کے اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔‘‘
يہ جانچ پڑتال بھی ضروری ہے کہ زلزلے سے کتنے شديد خطرات پيدا ہو سکتے ہيں اور ايٹمی بجلی گھر ان کا بوجھ کس حد تک سنبھالنے کی صلاحيت رکھتے ہيں۔ مزید یہ کہ ان بجلی گھروں میں استعمال شدہ ٹیکنالوجی کتنی پائيدار ہے؟ کيا ہنگامی صورتحال ميں بجلی کی فراہمی کے آلات کام کرتے رہيں گے يا نہيں؟ کيا ری ايکٹر اور استعمال شدہ جوہری سلاخوں کو ٹھنڈا رکھنے کا انتظام انتہائی مشکل حالات ميں بھی درست طور پر کام کرتا رہے گا؟
اس کے علاوہ انسانی غلطيوں کے امکان کو بھی پيش نظر رکھنا ہو گا۔ اوئٹنگر کا خيال ہے کہ جاپان ميں ایٹمی ری ايکٹروں کی تباہی سے پہلے اور بعد ميں غلطياں سرزد ہوئی تھیں۔ انہوں نے کہا:’’ٹيکنيشنز، انجينئروں اور دوسرے عملے کی اہليت کی پرکھ بھی ضروری ہے۔ ايٹمی بجلی گھروں کی بہترين انسانی نگرانی کے لیے کيا کچھ کيا جا سکتا ہے؟‘‘ اوئٹنگر نے کہا کہ اس عمل کی جانچ کرنے والوں کی يورپی سطح پر نگرانی بھی کی جائے گی۔
رپورٹ: کیتھرین برانٹ، برسلز / شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک