یورپی وزرائے داخلہ کا شینگن معاہدے سے متعلق اجلاس کل برسلز میں
11 مئی 2011ان مجوزہ اصلاحات کی وجہ یہ ہے کہ شمالی افریقہ کی کئی عرب ریاستوں میں عوامی احتجاجی تحریکوں اور وہاں ابھی تک پائی جانے والی بدامنی کی وجہ سے مہاجرین کے طور پر یورپ کا رخ کرنے والے ان ملکوں کے شہریوں کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے۔ اس اجلاس میں جن مختلف امکانات پر تفصیلی بحث ہو گی، وہ دراصل یورپی کمیشن کی پیش کردہ وہ تجاویز ہیں، جن میں اس مسئلے اور اس سے متعلق کئی دیگر امور کا احاطہ کیا گیا ہے۔
یورپی کمیشن کا مشورہ ہے کہ شینگن زون میں شامل ملکوں میں، جہاں قومی سرحدوں کی نگرانی کا عمل کئی سال پہلے ختم ہو چکا ہے، عارضی طور پر یہ عمل دوبارہ متعارف کرا دیا جائے۔ اس کے لیے یورپی کمیشن نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آزاد سرحدی معاہدے سے متعلق یہ عبوری لیکن ہنگامی اقدامات بیرونی عوامل کی وجہ سے پیدا ہونے والے اچانک شدید دباؤ کے پیش نظر ممکن ہونا چاہییں۔
یورپی کمیشن کی رائے میں عارضی طور پر سرحدوں کی نگرانی کا عمل صرف اُسی وقت دوبارہ متعارف کرایا جا سکتا ہے، جب شینگن زون کی رکن کوئی ریاست اپنی قومی سرحدوں کی صورت میں یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کی مناسب حفاظت سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے قابل نہ رہے۔ ان تجاویز میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ قومی کی بجائے یورپی سطح پر کیا جانا چاہیے کہ شینگن معاہدے کے طے شدہ ضابطوں کے برعکس اگر کوئی ملک اپنی سرحدوں کی حفاظت اور نگرانی کا عمل دوبارہ شروع کرے گا، تو وہ کون سا ملک ہوگا اور وہ کتنے عرصے کے لیے ایسا کرے گا۔
تاہم یورپی کمیشن نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ شینگن معاہدے کی اصل روح کے برعکس رکن ملکوں کی قومی سرحدوں کی دوبارہ نگرانی کا فیصلہ واقعی بہت ہنگامی حالات میں اور آخری حل کے طور پر کیا جانا چاہیے، جس کا مقصد یونین کی بیرونی سرحدوں کی حفاطت کے عمل کو بہتر بنانا ہو۔
اس کے علاوہ یورپی کمیشن نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ یونین کو اُن ملکوں کے ساتھ اپنے تعاون میں خاص طور پر اضافہ کرنا چاہیے، جن کے شہری غیر معمولی حد تک بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر یورپی یونین کے علاقے میں داخلے کی کوششیں کرتے ہیں یا یورپ پہنچ رہے ہیں۔
یورپی کمیشن نے وزرائے داخلہ کی کونسل کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ شمالی افریقہ میں زیادہ جمہوریت کے لیے تبدیلی کے تیز رفتار عمل کے پیش نظر اِن ملکوں کے یورپی باشندوں کے ساتھ شہری سطح کے رابطوں میں بھی اضافہ کیا جانا چاہیے۔ اس کا یورپی کمیشن نے ایک حل یہ تجویز کیا ہے کہ ایسے ملکوں سے ہنرمند کارکنوں کے لیے ویزوں کے اجراء کو آسان بنایا جائے اور طلبا، صحافیوں اور دانشوروں کی سطح پر آمد و رفت میں بھی آسانیاں پیدا کی جائیں۔
یورپی وزرائے داخلہ کے اسی اجلاس کے بارے میں یورپی کمیشن نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ سن 2012 تک یورپی یونین کی سیاسی پناہ سے متعلق مشترکہ پالیسی طے پا جانی چاہیے۔ اس بارے میں رکن ملکوں کے درمیان مذاکرات ابھی تک جمود کا شکار ہیں۔ یورپی یونین میں ابھی تک نافذ العمل سیاسی پناہ سے متعلق قوانین کے تحت کسی بھی غیر قانونی تارکِ وطن یا مہاجر کو سیاسی پناہ کے لیے اپنی درخواست اُسی یورپی ملک میں دینا ہوتی ہے، جہاں وہ سب سے پہلے پہنچتا ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امجد علی