یورپی ہوائی اڈوں پر حفاظتی انتظامات اور باڈی اسکینرز
3 فروری 2010لیکن یورپی یونین کے قریب چار سو ہوائی اڈوں پر اس حوالے سے ابھی بھی کافی فرق نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ یورپ میں کافی عرصے سے یہ بحث بھی زوروں پر ہے کہ اجتماعی سیکیورٹی کے نام پر عام شہریوں کی ذاتی زندگی میں کس حد تک مداخلت کی جا سکتی ہے؟
ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں شیپول کے ہوائی اڈے پر اب تک 15 ایسے باڈی اسکینرز لگائے جا چکے ہیں، جو کسی بھی مسافر کے جسم سے بندھے ہتھیاروں اور دھماکہ خیز مواد کی کمپیوٹر سکرین پر نشاندہی کر سکتے ہیں۔ ایمسٹرڈیم کے ہوائی اڈے پر ان باڈی اسکینرز کو ابھی تک رضاکارانہ بنیادوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی مسافروں کی جسمانی اسکیننگ کی جاتی ہے، اگر ان کو کوئی اعتراض نہ ہو تو۔ اس لئے کہ شیپول ایئر پورٹ پر ابھی تک یہ ٹیکنالوجی تجرباتی بنیادوں پر استعمال میں لائی جا رہی ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ یورپی یونین کے رکن ملکوں کے وزرائے داخلہ ابھی تک اس حوالے سے کسی ایک طریقہ کار پر متفق نہیں ہو سکے۔ یورپی کمیشن کی تجویز ہے کہ ان باڈی اسکینرز کو پوری یورپی یونین میں ہر ایئر پورٹ پر متعارف کرایا جائے۔ لیکن ساتھ ہی یونین کی انصاف سے متعلقہ امور کی نامزد خاتون کمیشنر Vivian Reding اس بارے میں بھی خبردار کرتی ہیں کہ مسافروں کی جسمانی اسکیننگ کے سلسلے میں ان کے شخصی حقوق کا بھی مکمل طور پر خیال رکھا جانا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں: "سلامتی کے حوالے سے ہماری خواہشات کی بنا پر عام شہریوں کی نجی زندگی میں مداخلت قرار دئے جانے والے ہر اقدام کو قطعی طور پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے شہری چیزیں نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسان ہیں۔"
یورپی سیاستدانوں کا مؤقف
ان باڈی اسکینرز کے استعمال پر یورپی پارلیمان کے بہت سے ارکان کو شدید اعتراضات ہیں۔ اس کے باوجود ڈچ حکومت جلد از جلد ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر ہر ٹرمینل کے سامنے ایسے اسکینرز لگا دینا چاہتی ہے۔ اٹلی میں جدید ترین ایکسرے مشینوں کی طرز پر کام کرنے والے ایسے اسکینرز ملک کے دو سب سے بڑے ہوائی اڈوں پر نصب کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ ان میں سے ایک روم کا ہوائی اڈہ ہے اور دوسرا میلان کا ایئر پورٹ۔ اٹلی میں ان اسکینرز کو صرف ایسے مسافروں کی جسمانی نگرانی کے لئے استعمال کیا جائے گا جو روم اور میلان کے ہوائی اڈوں سے امریکہ کے کسی شہر یا اسرائیل کے لئے پرواز کیا کریں گے۔
برطانوی دارالحکومت لندن میں یورپ کے سب سے بڑے اور مصروف ترین ہوائی اڈے ہیتھرو ایئر پورٹ پر بھی ایسے اولین اسکینر عنقریب ہی نصب کر دئے جائیں گے۔ فرانس کا مؤقف ہے کہ پیرس حکومت فی الحال ملکی ہوائی اڈوں پر ایسی ٹیکنالوجی کے استعمال کا جائزہ لے رہی ہے، اور ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ تاہم پیرس کے سب سے بڑے ہوائی اڈے پر تجرباتی بنیادوں پر ایسی چند مشینیں لگائی جا چکی ہیں۔ یورپی یونین کے رکن ملکوں میں چھوٹے شہروں کے ہوائی اڈوں پر ابھی ایسے اسکینرز نصب کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے صرف ایک اسکینر کی تنصیب پر قریب ایک لاکھ 20 ہزار یورو لاگت آتی ہے۔
باڈی اسکینرز سب کچھ نہیں
لیکن سیکیورٹی انتظامات کے سلسلے میں تمام تر توجہ صرف ان باڈی اسکینرز پر ہی کیوں؟ یورپی یونین کے انسداد دہشت گردی سے متعلقہ امور کے نگران خصوصی عہدیدار ژِیل دے کَیرکوفے خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق بحث کو صرف باڈی اسکینرز تک ہی محدود نہیں کر دینا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے: "بات صرف ہوائی اڈوں پر جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ آگے کی ہے۔ ہمیں لازمی طور پر کثیرالجہتی طرز فکر اپنانا ہوگا۔ ہمیں پولیس اور خفیہ اداروں سے حاصل ہونے والی معلومات کو ایک دوسرے سے مربوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں لازمی طور پر علم ہونا چاہیے کہ کون سے پاسپورٹ چوری ہوئے ہیں اور کس کو کون سا ویزا جاری کیا گیا ہے۔"
ژِیل دے کَیرکوفے کا کہنا ہے کہ محض زیادہ سے زیادہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہی سیکیورٹی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ہر چھوٹے بڑے شہر کے ہوائی اڈے پر باڈی اسکینرز لگانا بہت محنت طلب کام ہو گا اور غیر معمولی حد تک مہنگا بھی۔ اس سے کہیں زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ ممکنہ دہشت گردوں کے بارے میں مختلف ذرائع سے ملنے والی لیکن پہلے سے دستیاب معلومات کو مربوط بنایا جائے اور انہیں جلد از جلد پروسیس کیا جائے۔ ’’اس طرح کینیا سے تعلق رکھنے والے اس عسکریت پسند کا بہت پہلے ہی پتہ چلایا جا سکتا تھا، جو اس وقت امریکی حراست میں ہے اور جس نے گزشتہ برس کرسمس کے موقع پر امریکی فضائی کمپنی ڈیلٹا ایئرلائنز کی ایک مسافر پرواز کو دھماکے سے اڑانے کی ناکام کوشش کی تھی۔‘‘
پولیس ٹریڈ یونینیں
جرمنی اور جرمنی کی طرح کئی دیگر یورپی ملکوں میں پولیس اہلکاروں کی ٹریڈ یونین تنظیموں کو شکایت ہے کہ بہت سے ہوائی اڈوں پر سیکیورٹی انتظامات نجی شعبے کے اداروں کے حوالے کئے جا چکے ہیں۔ پھر مالیاتی مجبوریوں اور اخراجات کو کم سے کم رکھنے کے دباؤ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انتہائی حساس نوعیت کے فرائض کی ادائیگی ایسے افراد کے سپرد کر دی جاتی ہے جو کم تر اجرتوں پر یہ ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔ جرمنی میں پولیس کارکنوں کی ٹریڈ یونین کے ایک مرکزی عہدیدار یوزیف شوئرنگ کہتے ہیں کہ ضرورت صرف جدید ٹیکنالوجی کی ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ضرورت مناسب حد تک تربیت یافتہ اہلکاروں کی ہے۔
یوزیف شوئرنگ کہتے ہیں:’’گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے بعد سے ہم سیکیورٹی انتظامات ایک بار پھر مزید سخت کر چکے ہیں۔ اس لئے کہ فضائی سلامتی کے معیارات میں واضح بہتری کی ضرورت بھی شدید تر ہو گئی تھی۔ یہ ایک بہت ہی حساس شعبہ ہے، جس میں کام کرنے والوں کے لئے ان کے روزگار سے متعلق سماجی حالات اور شرائط میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ ایسے کارکنوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ فرائض کی انجام دہی کے تو حق میں ہے، مگر ساتھ ہی کارکنوں کو ملنے والی اجرتیں کم ہوتی جائیں گی، تو اس مؤقف کا حامل کوئی بھی شخص ایک ایسے نظام کی نمائندگی کرتا ہے جس کا نہ تو انسانوں سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے، اور نہ ہی سلامتی کے اعلیٰ مقاصد سے۔‘‘
پروفائلرز کی تعیناتی کا مطالبہ
یورپی پولیس اہلکاروں کی ٹریڈ یونینوں کا مطالبہ ہے کہ یورپی یونین کے ہوائی اڈوں پر صرف باڈی اسکینرز لگانے کے بجائے، وہاں ایسے ماہر اہلکار متعین کئے جانا چاہیئں، جو پروفائلر کہلاتے ہیں۔ ایسے پروفائلر نفسیاتی طریقے استعمال کرتے ہوئے بڑے سے بڑے ہجوم میں سے بھی مشتبہ افراد کو تلاش کر لیتے ہیں اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں کامیاب ہتھیار ثابت ہو سکتے ہیں۔
باڈی اسکینرز برائے فروخت
یورپی یونین میں سیکیورٹی انتظامات کے لئے باڈی اسکینرز کے استعمال کے حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ پر سن دو ہزار ایک کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد یورپی پارلیمان کی عمارت میں داخل ہونے والے افراد کی نگرانی کے لئے کئی سال پہلے چھ باڈی اسکینرز خریدے گئے تھے۔ لیکن ان اسکینرز کے استعمال کے حوالے سے شدید اعتراضات کے باعث ان مشینوں کو کبھی استعمال کیا ہی نہیں گیا۔ اسی لئے ایک طرف اگر بہت سے یورپی ایئر پورٹ اب ایسے اسکینرز خرید رہے ہیں تو دوسری طرف یورپی پارلیمان اپنی ملکیت یہی باڈی اسکینرز بیچنا چاہتی ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: کشور مصطفیٰ